قسط نمبر 214
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
یقیناً رخسانہ اور جمیلہ بھی بالآخر اب اطمینان اور اعتماد محسوس کررہی تھیں۔ ان کی باہم گفتگو اب گاہے گاہے ہمارے کانوں میں پہنچ رہی تھی۔ ایک خیال آنے پر میں نے رخسانہ کو مخاطب کرکے پوچھا ’’یہ بتائیں کہ کیا آپ لوگوں نے مانک کے گھر پر اس گورکھے پہرے دار کے علاو ہ کوئی اور ملازم بھی دیکھا تھا؟‘‘
اس نے اپنی آواز بلند رکھنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہوئے کہا ’’نہیں، ہمیں دوپہر کو کھانا کھلانے کے بعد گورکھے چوکی دار کی زیر نگرانی ناری نکیتن کی گاڑی میں یہاں لایا گیا تھا۔ شیامک نامی ملازم نے ہمیں یہاں پہنچایا تھا اور پھر وہ گاڑی واپس ناری نکیتن لے گیا تھا۔‘‘
میں نے پوچھا ’’کیا یہ ڈرائیور شیامک ناری نکیتن کا پرانا ملازم ہے؟‘‘
اس بار رخسانہ کے بجائے جمیلہ نے جواب دیا ’’وہ صرف ڈرائیور نہیں ہے۔ آپ اسے ناری نکیتن کا نگران سمجھ لیں۔ مانک کی غیر موجودگی میں وہاں کے سب معاملات وہی سنبھالتا ہے۔ البتہ اسے عورتوں کی خرید و فروخت کا اختیار نہیں ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر میرا دل خوشی سے دھڑکا۔ مانک کی اچانک ہلاکت سے پیدا ہونے والی الجھنیں دور ہونے کی کچھ امید پیدا ہوئی تھی۔ میں نے مزید پوچھا ’’مانک کی طرح مٹھو سنگھ اس شیامک پر بھی پورا اعتماد کرتاہوگا؟ میرا مطلب اسے بھی تو مٹھوسنگھ اور مانک کے اس کالے دھندے میں رازدار کی حیثیت حاصل ہوگی؟‘‘
رخسانہ نے پُر یقین لہجے میں کہا ’’ہاں، بلکہ عملاً تو سارے معاملات شیامک ہی چلاتا ہے۔ مانک تو بس حکم دیتا ہے۔ خریداروں کو لانا اور ناری نکیتن میں موجود مال دکھانا، سرکش لڑکیوں پر تشدد کرکے راہ راست پر لانا۔ دیگر ملازمین اور ناری نکیتن کے انتظامی معاملات سنبھالنا، یہ سب شیامک ہی کرتا ہے۔ مانک کی طرح وہ بھی مٹھو سنگھ سے ٹیلی فون پر رابطے میں رہتا ہے۔‘‘
میں نے محتاط لہجے میں پوچھا ’’کیا وہ تم بہنوں پر بھی تشدد کرتا تھا؟‘‘
جمیلہ نے جواب دیا ’’نہیں، ہمارے بارے میں ان سب کو خاص ہدایات تھیںکہ کوئی ہم پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ میں نے اس معاملے میں مزید تفصیلات بعد کے لیے چھوڑ کر پوچھا ’’ناری نکیتن میں آپ دونوں کے علاوہ مزید کتنی عورتیں قید تھیں؟ کیا ان میں مسلمان عورتیں بھی ہیں؟‘‘
رخسانہ نے بتایا ’’ہمیں ناری نکیتن میں قید باقی عورتوں سے ملنے جلنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے یقین سے کہنا مشکل ہے۔ میرا خیال ہے وہاں کم از کم دس بارہ خواتین ضرور موجود ہوں گی، ان میں یقیناً مسلمان بھی ہوں گی۔ ان میں سے کئی اپنی مرضی سے بھی وہاں مقیم ہیں جن کو اکثر روزانہ شام کو باہر بھیجا جاتا تھا۔ البتہ ہمیں کبھی نہیں کہا گیا۔‘‘
میں نے گفتگو کا رخ ایک بار پھر شیامک کی طرف موڑتے ہوئے پوچھا ’’شیامک کیا وہیں، ناری نکیتن میں ہی مستقل رہتا ہے؟‘‘
اس بار جمیلہ نے جواب دیا ’’نہیں، وہاں کی ملازمہ جانکی نے بتایا تھا کہ شیامک اجیت نگر میں سرسوتی مندر کے پاس رہتا ہے۔ وہ روز رات گئے ناری نکیتن کی گاڑی میں اپنے گھر جاتا ہے اور دوپہر کو واپس آتا ہے۔‘‘
رخسانہ اور جمیلہ شیامک کے بارے میں جو کچھ بتارہی تھیں، وہ ظہیر بھی بغور سن رہا تھا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کا ذہن بھی تیزی سے ان ہی امکانات پر غور کررہا ہے جو میرے دماغ میں جنم لے رہے ہیں، لیکن اس نے ہماری گفتگو میں مداخلت نہیں کی۔
راج پورسے منڈی گوبندگڑھ تک کے سفر میں ہمیں راستے میں کوئی دشواری یا رکاوٹ درپیش نہیں ہوئی۔ میں نے ظہیر کی رہنمائی میں جیپ سیدھی ناصر کے گودام کے احاطے میںلے جاکر روک دی۔ ابھی ہم گاڑی میں ہی بیٹھے تھے کہ ناصر کے ساتھ یاسر بھی سیڑھیاں اتر کر ہمارے پاس پہنچ گیا۔ ان دونوں نے ہمارے چہروں سے ہی ہماری کامیابی کی خوش خبری پڑھ لی، جبکہ رخسانہ اور جمیلہ پر نظر پڑتے ہی اس تاثر کی تصدیق بھی ہوگئی۔
یاسر نے مجھے گرم جوشی سے سینے سے لپٹاتے ہوئے کہا ’’بہت بہت مبارک ہو میرے بھائی۔ اللہ رب العزت تم دونوں کو جزا دے۔ بہت بڑا کام کیا تم لوگوں نے!‘‘ ناصر نے بھی کچھ اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا۔ ہمارے پیچھے پیچھے رخسانہ اور جمیلہ بھی اتر آئی تھیں۔ انھوں نے بھی ان چچا بھتیجے کو سلام کیا اور دعائیں اور نیک خواہشات وصول کیں۔
ہم ان دونوں کی رہنمائی میں احاطے کے عقب میں واقع کئی کمروں کے ایک کشادہ گھر میں آگئے جہاں پختہ عمر کی ایک خاتون نے دونوں لڑکیوں کا استقبال کیا اور اپنے ساتھ اندر لے گئی۔ جبکہ ہم چاروں نے بیٹھک نما بیرونی کمرے میں بچھے پلنگوں پر قبضہ جمالیا۔ اس کے ساتھ ہی یاسر نے بے تابی سے پوچھا ’’سب ٹھیک تو رہا جمال بھائی؟ کوئی مسئلہ تو پیش نہیں آیا؟ ہم بہت فکر مند تھے۔‘‘
میں نے مطمئن لہجے میں کہا ’’اللہ کا کرم اور خصوصی مدد شامل ِ حال رہی ۔ ورنہ معاملہ تو کسی بھی وقت بگڑ سکتا تھا۔ ایک چھوٹی سی گڑبڑ کے علاوہ سب کچھ منصوبے کے مطابق نمٹ گیا۔‘‘
ناصر نے چونک کر پوچھا ’’کیسی گڑبڑ یاسر بھائی؟‘‘ یاسر بھی سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے انھیں جمیلہ کے کارنامے کے بارے میں بتایا۔ میری بات سن کر یاسر نے تحسین بھرے لہجے میں کہا ’’یار یہ جمیلہ تو بہت بہادر بچی ہے۔ کمال کردیا اس نے !‘‘
ناصر نے بھی ستائشی جذبات کا اظہار کیا۔ میں نے ان دونوں کو تفصیل سے اپنی کارروائی کے بارے میں آگاہ کیا۔ ظہیر بھی میری باتوں میں اضافہ کرتا رہا۔اس دوران ان دونوں کے چہرے پر کبھی تجسس، کبھی تشویش اور کبھی جوش و مسرت کے جذبات ابھرتے رہے۔ ہماری بات مکمل ہونے پر انھوں نے ایک بار پھر ہمیں زبردست شاباش دی۔
میں نے ان کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا ’’ان دونوں بچیوں کی آزادی کشمیر کی آزادی کیلئے بھی نیک شگن ثابت ہوئی ہے۔ وہاں سے بہت سا مال ہمارے ہاتھ لگا ہے جو ظہیر کے لیے اپنا مشن آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔‘‘ پھر میں نے ظہیر کو مخاطب کیا ’’یار نکالو سارا مالِ غنیمت، دیکھیں تو سہی کیا کچھ ہاتھ آیا ہے۔‘‘ (جاری ہے)