قسط نمبر: 26
محمد فاروق
محمد فاروق اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رہنما ہیں۔ برطانیہ میں مقیم محمد فاروق نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ جو نہ صرف ایک عہد کی آئینہ دار ہے، بلکہ اس میں شریعت و تصوف کے امتزاج کی لطافت بھی جابجا ملتی ہے۔ قارئین کیلئے ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے منتخب ابواب پیش کئے جارہے ہیں۔
واپس آتے ہیں اس غلطی کی طرف جس کا ذکر کیا گیا۔ سید مودودیؒ نے شاید اپنی پوری علمی اور تحریکی زندگی میں پہلی بار ایک ایسی غلطی کا ارتکاب کیا، جسے غلط کہنے کے سوا چارہ نہیں۔ چنانچہ شوریٰ کی متفقہ قرارداد کے پاس ہوجانے اور ارکان شوریٰ کا گھروں کو رخصت ہوجانے کے چند ہی دن بعد سید مودودیؒ نے 23 دسمبر 1956ء کو اسی جائزہ کمیٹی کیخلاف بقول ڈاکٹر اسرار مرحوم، ایک ’’چارج شیٹ‘‘ مرتب کرکے اسے قیم جماعت کے ذریعے ارکان کمیٹی کے گھروں کو بھیج دیا۔ اس چارج شیٹ کی تفصیل آپ ڈاکٹر اسرار احمد کی کتاب ’’تاریخ جماعت اسلامی کا ایک گمشدہ باب‘‘ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ آپ کسی اور حوالے یا کتاب سے بھی سید مودودیؒ کے اس خط کو پڑھ سکتے ہیں۔ آپ یہ گمان نہ کریں کہ ہم ان مباحث کو محض اس کتاب کے مندرجات پر تکیہ کرکے آپ تک پہنچا رہے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ فی الحال اس وقت ہمارے سامنے یہی کتاب حوالے کے طور پر موجود ہے۔ لیکن ہم اس کتاب پر اور خود ڈاکٹر صاحب کے سید مودودیؒ کی ذات کے حوالے سے بے تحاشا بے اعتدالیوں پر آگے بات کرنے والے ہیں۔ ہم یہ بھی آگے واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ سید مودودیؒ کے اس انتہائی غیر معمولی اقدام کا اصل محرک کیا تھا۔ سردست ہم اپنی گفتگو اس چارج شیٹ اور اس سے پیدا ہونے والی غیر معمولی صورت حال تک محدود رکھتے ہیں۔
اس چارج شیٹ میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یہ کمیٹی بقول سیدؒ کے، بدقسمتی سے خود کچھ ’’غیر مطمئن ارکان‘‘ پر مشتمل تھی، جنہوں نے ایک طرف اپنے دستوری اختیار یا مجلس شوریٰ کی تجویز کردہ حدود سے تجاوز کیا ہے۔ ساری تحقیقات کو ایک خصوصی نقطہ نظر سے کر کے اپنی رپورٹ میں صرف جماعت کی ’’ایک رخی‘‘ تصویر پیش کی ہے، جو سید مودودیؒ کے خیال میں ایک ’’نادانستہ سازش‘‘ کے مترادف ہے۔ دوسری طرف یہ جماعت اسلامی میں پہلی بار ایک جتھہ بندی کی مثال ہے، اور مزید یہ کہ یہ اس کمیٹی کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ اگر یہ ایک طرز فکر کے لوگ تھے، تو انہیں خود ہی کمیٹی کی اس خامی کی نشاندہی کرنی چاہئے تھی۔
اس کے ساتھ ہی سید مودودیؒ نے ان ارکان شوریٰ سے مطالبہ کیا کہ وہ یا تو خود شوریٰ کی رکنیت سے مستعفی ہوں… یا اگر ان ارکان شوریٰ کے حلقوں میں موجود ارکان جماعت اسلامی سید مودودی سے امارت کی خدمت لینا چاہتے ہیں تو ان ارکان سے استعفے لیکر شوریٰ کیلئے دوسرے ارکان کا انتخاب کرلیں۔ یہ چارج شیٹ جماعت اسلامی کے تمام ارکان، قائدین اور عام ہمدردوں کیلئے ایک بھونچال سے کم نہ تھی۔ آپ حیران ہوںگے کہ جب آپ اس خط کو ملاحظہ کریں گے تو آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ یہ انہی سید مودودیؒ کی تحریر ہے، جو ہر حال میں اپنی تحریروں میں حیرت انگیز ربط، قوت استدلال اور سنجیدگی و متانت کا اعلیٰ ترین مقام رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ایک ایک لفظ سے یہ متشرح ہے کہ یہ خط شدید ذہنی دبائو، غصے اور مایوسی میں لکھا گیا ہے، جس میں سیدؒ کی تحریروں کی تمام خوبیاں مکمل طور پر عنقا ہیں۔
جماعت اسلامی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی مہربانی اور کرم تھا کہ سید مودودیؒ کے ایک دیرینہ دوست و رفیق کار اور وقت کے اونچے پائے کے صاحب علم امین احسن اصلاحیؒ موجود تھے۔ انہوں نے اس پیدا شدہ، بلکہ نادانستہ طور پر پیدا کردہ بحران میں جس استقامت، فہم و فراست، صلح جوئی اور آخری حد و آخری وقت تک معاملات کو سدھارنے کی کوشش میں اپنے مقام و مرتبے کی جو قربانی دی، اس کی مثال جماعت کی تاریخ اور شاید خود اصلاحی صاحب کی زندگی میں تلاش کرنا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے نیک مساعی کو قبول فرمائے۔
انہوں نے پہلے سید مودودیؒ سے ملاقات… بلکہ ملاقاتیں کرکے اس اقدام سے منع کرنے اور اس چارج شیٹ کو واپس لینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ جب ملاقاتوں میں برف نہ پگھلی تو ایک معرکتہ الارا خط لکھ کر سید مودودیؒ کی غلطی ان پر واضح فرمائی۔ چونکہ یہ خط جیسا کہ عرض کیا گیا اصلاحی صاحب نے سید مودودیؒ سے ملاقات یا ملاقاتوں کے بعد لکھا تھا اور ان ملاقاتوں میں سیدؒ کی طرف سے جائزہ کمیٹی کے نام اس کے الزامات واپس لینے میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے یہ ایک قدرتی امر ہے کہ اصلاحی صاحب کا یہ خط اگر سید مودودیؒ کی طرف سے جائزہ کمیٹی پر لگائے جانے والے الزامات کا مدلل جواب تھا تو دوسری جانب لا محالہ یہ سید مودودیؒ پر ایک سخت ترین تنقید، بلکہ پہلی بار امین احسن اصلاحیؒ کی جانب سے عدم اعتماد کا اظہار بھی تھا۔ یہی خط تھا جس کی شکایت بعد میں سید مودودیؒ کرتے رہے اور کسی حد تک ان کا یہ تاثر درست بھی تھا کہ اصلاحی صاحب کے ہاتھوں اس خط میں سید مودودیؒ کی ذات کو مجروح کیا گیا ہے۔ سید مودودیؒ کی طرف سے اگرچہ بعد کی صلح صفائی میں جائزہ کمیٹی کے نام اس چارج شیٹ کو واپس بھی لیا گیا، مگر سید مودودیؒ اس پر اپنی جانب سے معذرت کرنے کے باوجود آخری وقت تک اس اقدام کے درست ہونے پر اصرار کرتے رہے۔ اس کی ایک وجہ کسی حد تک اس ’’گواہی‘‘ کے سامنے آجانے کے بعد سمجھ میں آتی ہے جو ہم آگے بیان کرنے والے ہیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ جہاں اس خط میں اصلاحی صاحب کا موقف اصولی طور پر درست تھا، وہاں اس اقدام کو غلط ثابت کرنے کے ساتھ سید مودودیؒ کے حوالے سے اصلاحی صاحب کو جو لب و لہجہ اختیار کرنا پڑا، اس کے نتیجے میں دونوں دیرینہ ساتھیوں کے درمیان اعتماد کے رشتوں کا ٹوٹ جانا ایک قدرتی امر تھا۔ میں نے ذاتی طور پر جتنا کچھ اس پر غور کیا ہے، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس معاملے میں بہرحال غلطی کی ابتدا سید مودودیؒ سے ہوئی ہے۔ ہم ان کے حق میں ان کیلئے تمام تر عقیدت کے باوجود اس حقیقت کے اظہار پر مجبور ہیں کہ وہ بے شک اصلاحی صاحب کی طرف سے اس خط پر اپنی تمام شکایتوں میں حق بجانب ہوں، مگر اس سے انکار نہیں کہ اس کا باعث وہ خود ہی تھے۔ اس تاریخ سے دلچپسی رکھنے والا کوئی طالب علم اس تحریر کا خود مطالعہ کرے گا تو ایک بہتر رائے قائم کرسکتا ہے۔
یہاں ہم اس خط کو پورے کا پورا نقل کرنے سے معذور اس لئے ہیں کہ ہم اپنے موضوع سے نہ ہٹنے کے عزم کے ساتھ کسی حد تک اپنے اس خط کی حیثیت کی وجہ سے اختصار کا راستہ اختیار کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ اصلاحی صاحب نے سید مودودیؒ کے جائزہ کمیٹی کے ارکان کے نام اس چارج شیٹ میں کمیٹی کے ارکان کا دفاع کیا اور اٹھائے گئے نکات کا ایک ایک کرکے ان کا مسکت جواب بھی دیا۔ اصلاحی صاحب کی طرف سے اٹھائے گئے دوسرے نکات اور جوابات کے علاوہ ایک بہت ہی معقول اور قیمتی نکتہ یہ تھا کہ اگر سید مودودیؒ کے نزدیک جائزہ کمیٹی کے ارکان نے واقعی اپنی حدود سے تجاوز کرکے یکطرفہ یا ’’یک رخی‘‘ رپورٹ پیش کی تو سید مودودیؒ کو نہ صرف یہ کہ اس رپورٹ کے شوریٰ کے سامنے پیش کئے جانے کے بعد اس مصالحتی فارمولے کو اسی وقت مسترد کردینا چاہئے تھا… بلکہ اس رپورٹ کو بھی شوریٰ کے سامنے نامنظور کرکے اپنے نقطہ نظر کو پیش کرنا اور ارکان شوریٰ اور ارکان جائزہ کمیٹی کے ساتھ کھلا مباحثہ کرلینا چاہئے تھا۔
چنانچہ اصلاحی صاحب فرماتے ہیں: ’’میرے نزدیک تو وہ (جائزہ کمیٹی کے ارکان) جماعت کے بڑے ہی خیر خواہ تھے اور انہوں نے ایک مصالحتی فارمولا پیش کرکے جماعت کو ایک بڑے خطرے سے نکال لیا اور آپ نے بھی بڑی دانشمندی کا کام کیا تھا کہ ان کو مان لیا تھا۔ لیکن افسوس ہے کہ اس کو مان لینے اور منوالینے اور شوریٰ کے اختتام پر اس کی کامیابی کی دعا کرچکنے کے بعد اب آپ اس کو جماعت اسلامی کی بدقسمتی کا آغاز سمجھتے ہیں۔ یہ فارمولا جماعت اسلامی کی بدقسمتی کا آغاز تھا، تو اسی وقت آپ نے فرما دیا ہوتا کہ میں ایک فرض شناس امیر کی حیثیت سے اس بدقسمتی کا آغاز کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں۔ لیکن اس وقت تو آپ نے اس کا آغاز فرمانا منظور کرلیا اور اپنی فرض شناسی آپ کو یاد نہ آئی، لیکن جب ارکان کو اتحاد و اتفاق کی تلقین اور دعا و درود کے بعد مجلس برخاست ہوگئی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو سدھار چکے تو آپ کو اپنی فرض شناسی یاد آئی‘‘۔ (جاری ہے)