جرمنی میں اے ٹی ایم مشینیں لٹیروں کیلئے آسان ہدف بن گئیں

دھماکہ خیز ڈیوائسز کے ذریعے اڑا کر کیش لوٹنے کی کارروائیاں بڑھ رہی ہیں- ایک برس کے دوران 400 سے زائد وارداتیں ریکارڈ کی جا چکیں- سلسلہ 2006ء سے شروع ہوا- کروڑوں یورو لوٹے جا چکے- کوئی بھی بینک نقصان کے درست اعداد و شمار دینے کیلئے تیار نہیں

نذر الاسلام چودھری
جرمن پولیس اور اسپیشل اسکواڈ نے انکشاف کیا ہے کہ جرمنی میں اے ٹی ایمز کو بموں اور دھماکا خیز کنٹرولڈ ڈیوائسز سے اڑا کر لوٹنے کا رجحان زور پکڑ اگیا ہے۔ ایک سال کے دوران 400 سے زیادہ اے ٹی ایم مشینوں کو بموں سے اُڑا کر رقم چوری کی جا چکی ہے۔ فیڈریل آرگنائزڈ کرائم انوسٹی گیشن حکام نے تازہ اعداد و شمار کی رو سے بتایا ہے کہ جرمنی کے مشرقی اور شمال مغربی صوبوں میں اے ٹی ایم مشینوں کی لوٹ مار کے واقعات سنگین صورت اختیار کرگئے ہیں، جس میں جنوری 2018ء سے اب تک دھماکا خیز مواد سے اے ٹی ایم مشینوں کو اڑا کر لوٹ لئے جانے کی 400 وارداتیں ریکارڈ کا حصہ بنائی جاچکی ہیں۔ 38 کیس ایسے بھی ہیں جن میں مشینوں سے رقم چوری کئے جانے کی وارداتیں ناکام ہوگئی تھیں۔ جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ اعلیٰ حکام اور بینک اتھارٹیز نے تسلیم کیا ہے کہ ایسی وارداتوں میں کروڑوں یوروزکی رقوم غائب کی گئی ہیں جن سے بینکوں کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن کوئی بھی بینک اس سلسلہ میں لوٹی گئی رقم کے اعداد و شمار جاری کرنے پر تیار نہیں ہے۔ جرمن جریدے ڈائی بلڈ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2006ء میں اے ٹی ایم مشینوں کو توڑ کر یا دھماکا خیز مواد کی مدد سے اڑانے اور کیش سے خالی کردئے جانے کی وارداتیں پہلی بار سامنے آئیں۔ اس کے بعد چوروں اور منظم مجرموں کے گینگز نے باقاعدہ ایسی دھماکا خیز ڈیوائس تیار کرنا شروع کردیں جن کی مدد سے کم سے کم آواز پیدا کرنا اور اے ٹی ایم مشینوں کی بیرونی حفاظتی پرت توڑنا زیادہ آسان تھا۔ ایک محدود دھماکے کے نتیجے میں اے ٹی ایم مشین کا نچلا حصہ ٹوٹ کر الگ ہوجاتا ہے اور کیش کا باکس صاف دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح منظم مجرموں کا گینگ جو تین سے چار افراد پر مشتمل ہوتا ہے، اے ٹی ایم سے کیش نکال کر تھیلوں میں بھر کر نکل جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حیران کن اور دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ اے ٹی ایمز کو خالی کردینے والے مجرموں کو گرفتار کرنا تو کجا ان کے بارے میں کوئی اطلاع تک ملنے کی کوئی خبر نہیں ہے اور مجرم آزاد پھر رہے ہیں۔ البتہ اب تک دو غیر ملکی باشندوں جن کا ہالینڈ سے تعلق بتایا جاتا ہے، کو اسپارڈا بینک اے ٹی ایم کو لوٹنے کے شبے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کے قبضے سے پولیس کی اسپیشل ٹیم نے دو پائپ اور دھماکا خیز مواد بر آمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن اب تک ان کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز نہیں کیا جاسکا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انہیں شک ہے کہ ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے مراکشی باشندوں کا ایک گروہ اے ٹی ایمز کو توڑنے کا ماہر ہے۔ اور اسی گروپ کے تربیت یافتہ افراد جرمنی میں پہنچ کر کارروائی میں مشغول ہیں۔ وہ ایسی اے ٹی ایم مشینوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں جو روڈ سے دور ہیں یا رہائشی عمارات میں قائم ہیں اور یہاں رات کے آخری پہر عوامی آمد و رفت کم سے کم ہوتی ہے۔ بون شہر کے جنرل پراسکیوٹر اسٹیفن بیکر نے بتایا ہے کہ اے ٹی ایمز دھماکا کیس میں مجرم گینگ حساس آلات لے کر آتے ہیں۔ ان کے پاس موبائل فونز کی کمیونی کیشن کو روکنے یا جام کرنے کی ڈیوائس ہوتی ہیں۔ وہ آواز کو کم کرنے کیلئے اسپیشل دھماکا خیز ڈیوائس لاتے ہیں جو شور کم اور نقصان زیادہ کرتی ہے۔ وہ منہ پر پتلی ربڑ کا ماسک پہنتے ہیں اور برساتیاں پہنتے ہیں تاکہ سی سی ٹی وی کیمروں سے ان کی شناخت نہ کی جاسکے۔ ایک اسکوٹر کو اے ٹی ایم مشین کے باہر کسی گلی میں اسٹارٹ کرکے کھڑا کرتے ہیں تاکہ فرار کی راہ مسدود نہ ہوسکے۔ جرمن بینکوں اور پولیس نے اس سلسلہ میں بتایا ہے کہ 2006ء میں اے ٹی ایم دھماکا کیسوں کی ابتدائی 7 وارداتیں ریکارڈ پر آئیں اور سال 2007ء میں ان کی تعداد13ہوگئی پھر 2008ء میں یہ وارداتیں 33ہوئیں جو بڑھتے بڑھتے سال2016ء میں 267 ہوگئیں اور اگلے برس اے ٹی ایم بلاسٹ ڈکیتی کیسوں کی تعداد294ء ہوئی اور2018ء میں یہ وارداتیں 400 سے متجاوز ہوچکیں۔ دوسری جانب جرمن پولیس اس ضمن میں کوئی ایکشن لینے یا مجرموں کی نشان دہی کرنے سے تا حال قاصر دکھائی دیتی ہے۔

Comments (0)
Add Comment