سرد ترین شہر میں دو ماہ سورج نہیں نکلتا

نورلسک نامی روسی شہر میں موسم سرما کے دوران درجہ حرارت منفی 64 ڈگری تک گر جاتا ہے- سال میں 270 دن برفباری ہوتی ہے- گرمیوں میں بھی ٹمپریچر مائنس سے نیچے رہنا معمول- 75 ہزار نفوس کی آبادی تک جانے کا واحد ذریعہ ہوائی جہاز ہے
ضیاء الرحمن چترالی
لاہور میں ہفتہ کے روز درجہ حرارت منفی صفر ہونے پر ملک بھر میں حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن تصور کریں دنیا میں ایسے علاقے میں بھی لوگ آباد ہیں، جہاں درجہ حرارت منفی 67 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ یہ علاقے روس کے سرد ترین خطے سائبیریا میں واقع ہیں۔معروف عربی جریدے الشرق الاوسط نے دنیا کے اس سرد ترین علاقے میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ روسی دارالحکومت ماسکو سے 18 سو کلومیٹر شمال میں دنیا کا سب سے سرد ترین شہر ’’نورلسک‘‘ (Norilsk) واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی ایک لاکھ 75 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ نورلسک میں سال کے 365 ایام میں سے 270 روز برفباری ہوتی ہے۔ دریائے لینا کے ساتھ آباد نورلسک قطب منجمد شمالی کا سب سے بڑا شہر ہے، جو اس خطے کا صنعتی مرکز بھی کہلاتا ہے۔یہاں نکل (Nickel) اور پلاڈیم (Palladium) کی دنیا کی سب سے بڑی کانیں ہیں۔ اس لئے سخت ترین سردی کے باوجود لوگ سال بھر یہاں قیام پذیر رہتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پہاڑوں میں گھرے اس صنعتی شہر تک پہنچنے کے لئے کوئی زمینی راستہ نہیں ہے۔ یہاں رسائی کا واحد ذریعہ ہوائی جہاز ہے۔ نورلسک شہر چونکہ قطب شمالی کے قریب واقع ہے، اس لئے دسمبر اور جنوری کے مہینے میں یہاں سورج بھی طلوع نہیں ہوتا۔ یہاں موسم سرما میں درجہ حرارت عموماً 64 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ جبکہ گرمیوں میں بھی نقطہ انجماد سے نیچے ہی رہتا ہے۔ نورلسک شہر میں منفی 14 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت کو نارمل موسم قرار دیا جاتا ہے۔ نورلسک سے مزید شمال کی طرف جائیں تو دنیا کے 2 سرد گائوں آتے ہیں۔ گینز بک آف ورلڈ کے مطابق ’’ویرخویانسک‘‘ نامی گائوں میں ایک مرتبہ موسم سرما میں 67.8 سینٹی گریڈ اور گرمیوں میں 37.8 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کا ریکارڈ بنا۔جبکہ ’’اومیاکین‘‘ نامی گائوں میں 1924ء میں تاریخ کا کم ترین درجہ حرارت منفی 71 تک ریکارڈ کیا گیا تھا، جو کرئہ ارض کے انسانی آبادی والے کسی بھی علاقے کا کم ترین درجہ حرارت تھا۔ واضح رہے کہ کرئہ ارض کا سرد ترین علاقہ قطب شمالی اور قطب جنوبی ہیں، جہاں درجہ حرارت منفی 92 ڈگری سینٹی گریڈ تک کرجاتاہے، تاہم وہاں کوئی انسان آباد نہیں ہے۔ ویرخویسانک گاؤں کی آبادی 1131 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کے باسی دریاؤں سے برف کے ٹکڑے کاٹ کر پانی کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ ہر مکان کے پاس پانی جمع کرنے کے لیے اپنی جگہ ہے۔ برف کے ان ٹکڑوں کو گھروں کے اندر ہی پگھلایا جاتا ہے۔ پائپ میں بہتا ہوا پانی چونکہ اونچے درجہ حرارت کی وجہ سے نہیں جمتا، اس لیے وہ پینے کے قابل ہوتا ہے۔ مقامی افراد کو اپنی گاڑیاں پورا پورا دن چلانی پڑتی ہیں، کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ یہ دوبارہ موسم بہار تک دوبارہ اسٹارٹ نہیں ہو سکیں گی، کیونکہ سخت سردی کی وجہ سے بیٹری ڈائون ہو جاتی ہے ۔ دوسری طرف موٹے کپڑوں میں ملبوس گھوڑے اور کتے اسی جما دینے والے درجہ حرارت میں باہر ہی گزارتے ہیں۔ یاکوت گھوڑا چھوٹا ہوتا ہے اور سرد موسم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نسل کے گھوڑے کو بنیادی طور پر گوشت کے لیے پالا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہاں کے لوگوں نے اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ ان کی خوراک قطبی ہرن اور گھوڑے کا گوشت ہے، جبکہ مشروب کے طور پر گھوڑے کے دودھ کا استعمال عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ غذائیت کی کمی کا شکار نہیں ہوتے۔ گھروں میں کوئلہ اور لکڑی جلا کر توانائی اور روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ یہاں کھیتی باڑی زمین کی کم یابی اور سخت موسم کے باعث نا ممکن ہے، اس لیے پورے علاقے میں قطبی ہرن، گھوڑے کی فروخت اور آئس فشنگ ہی روزگار کے ذرائع ہیں۔ اویمیاکن گاؤں میں ایک اسکول بھی ہے، جو صرف منفی 52 سے زیادہ درجہ حرارت ہونے ہر ہی بند کیا جاتا ہے۔ یہاں سردیوں میں دن 3 گھنٹے تک کا ہوتا ہے، جبکہ گرمیوں میں اکیس گھنٹے تک کا بھی ہو سکتا ہے۔ شادی بیاہ کی رسومات ہوں یا خوشی کے مواقع، یہاں رنگین و سرد موسم میں روایتی رقص اور رسومات کی گرمی ایک الگ ہی ماحول پیدا کر دیتی ہے۔ جہاں خوشی کے لمحات منفرد و نرالے ہیں، وہیں جنازے کی تدفین بھی کسی کٹھن مرحلے سے کم نہیں۔ اپنے پیاروں کو دفنانے کے لیے کئی فٹ گہری قبر کھودنا پڑتی ہے، جس کے لیے دہکتے کوئلوں کی مدد سے تہہ در تہہ جمی برف کو پگھلایا جاتا ہے۔ برف باری کے دوران بھی زمین کی سطح تک پہنچنے کے بعد کھدائی کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور کئی فٹ گہرائی میں مردے دفنا دیئے جاتے ہیں، جس میں اکثر تین دن سے ایک ہفتہ تک کا عرصہ بھی لگ جاتا ہے۔ موسم کی سختیوں نے یہاں برسوں سے رہائش پذیر مکینوں کو سخت جان بنا دیا ہے۔ موسمی تغیرات یہاں کے معمولات زندگی کو زیادہ متاثر نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنی سرزمین سے مکینوں کی محبت کو کم کر سکا ہے۔ ٭

Comments (0)
Add Comment