سزا کیخلاف نواز شریف کی اپیل 10روز میں کئے جانے کا امکان

اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جائے گی- مریم نواز نے خواجہ حارث ایڈووکیٹ کو سابق وزیر اعظم کی ہدایات پہنچادیں
نواز شریف کی احسن اقبال سے بھی کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات- پارٹی کو احتجاج کی طرف نہ لے جانے کا حکم دیدیا- ذرائع

نجم الحسن عارف
نواز شریف کی سزا سے متعلق نیب عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیل کی تیاری شروع کر دی گئی۔ مریم نواز نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث ایڈووکیٹ کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ جیل میں نواز شریف سے مریم نواز کی ملاقات میں ملنے والی ہدایات بھی خواجہ حارث کو پہنچا دیں۔ امکانی طور پر اپیل جنوری کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کر دی جائے گی۔ تاہم اس سے قبل خواجہ حارث ایڈووکیٹ ایک مرتبہ اپنے مؤکل سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کر کے تبادلہ خیال بھی کریں گے۔ جیل میں قید نواز شریف جنہیں 4470 کا قیدی نمبر الاٹ ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے مرکزی رہنما احسن اقبال کو ملاقات کے دوران حکم دیا ہے کہ فی الحال پارٹی کو احتجاجی موڈ میں نہ لے جایا جائے۔ ذرائع کے مطابق آج اتوار کے روز پارٹی کے یوم تاسیس کی تقریبات کو بھی ’’ان ڈور‘‘ کرنے کے احکامات دیئے گئے ہیں اور ابھی کچھ وقت کیلئے حالات کا رخ دیکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ واضح رہے اس سے قبل اسلام آباد میں نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے ’’ن‘‘ لیگ کے مشاورت اجلاس میں طے کیا گیا تھا کہ نواز شریف کو عدالت سے سزا ہونے کی صورت میں پارٹی اپنے یوم تاسیس کے موقع پر ’’ان ڈور کنونشن‘‘ کرنے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پارلیمنٹ سے باہر بھی احتجاجی جلسے کا سا انداز اختیار کرے گی۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں لاہور میں سب سے اہم احتجاجی جلسہ جسے کنونشن کا نام دیا جانا تھا، جاتی امرا پر اڈہ پلاٹ یا لاہور کے بیچوں بیچ مال روڈ میں سے کسی ایک جگہ کرنا طے پایا تھا۔ لیکن جمعرات کے روز احسن اقبال نے کوٹ لکھپت میں نواز شریف سے ملاقات کی تو انہیں احتجاج سے روک دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف نے پارٹی رہنمائوں سے حالیہ دنوں میں ملاقاتوں اور میاں شہباز شریف کی طرف سے بھجوائے گئے پیغام کی روشنی میں ابھی تیل کی دھار دیکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف یہ خیال کرتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کیلئے صرف 2019ء کا سال ہی ہو سکتا ہے، اس کے بعد امکان ہے کہ یہ حکومت اپنی ناقص کارکردگی کے باعث ہی ختم ہو جائے گی۔ اسے گھر بھجوانے کیلئے زور نہیں لگانا چاہئے۔ ان ذرائع نے اس پس منظر میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پارٹی کے مرکزی صدر شہباز شریف کے حالیہ چند ہفتوں میں مقتدر حلقوں سے رابطوں کے اثرات اور نتائج کی بھی تردید نہیں کی ہے۔ تاہم عدالتی سطح پر اپنا کیس لڑ کر جیتنے اور باعزت بری ہونے کو نواز شریف نے اپنی ترجیح بنا رکھا ہے۔
ذرائع کے مطابق نواز شریف نہیں چاہتے کہ حکمراں جماعت میں موجود بعض عناصر کو یہ پراپیگنڈہ کرنے کا موقع ملے کہ این آر او یا سمجھوتہ کر کے باہر آئے ہیں۔ اس لئے نیب عدالت کے فیصلے کے خلاف ایون فیلڈ کیس میں فیصلے کی طرح العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رابطہ کیا جائے گا۔ اس معاملے کی اب نگرانی مریم نواز شریف کریں گی جو ایون فیلڈ کیس میں اپنے والد میاں نواز شریف اور شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر کے ساتھ سزا یافتہ ہیں۔ مگر اسلام آباد ہائی کورٹ سے عبوری ریلیف کی بنیاد پر رہا ہیں۔ ذرائع کے مطابق مریم نواز پرانے اور نئے کیس میں قانونی و عدالتی معاملات میں سرگرم کردار ادا کریں گی جیسا کہ انہوں نے میاں نواز شریف کے خلاف نیب عدالت کے نئے فیصلے کے بعد اپنی پانچ ماہ کی خاموشی توڑتے ہوئے پھر سے ٹوئٹ کرکے کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ قانونی و عدالتی محاذ پر میاں نواز شریف کی سپاہی کے طور پر لڑیں گی۔ مسلم لیگ نواز کے ذرائع کے مطابق اگرچہ نواز لیگ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے اٹھائے گئے نکات کی بنیاد پر آئین کی دفعہ 62 ایک ایف کے بارے میں ایک مجموعی نظرثانی کے حق میں ہے تاکہ سپریم کورٹ کا ایک لارجر بینچ ہمیشہ کیلئے 62 ایک ایف کے اطلاق اور اس سلسلے میں عدالتی اختیار کا معاملہ طے کر دے۔ اس سے میاں نواز شریف کو بھی فائدہ ہو جائے تو بہت اچھا ہو گا۔ ان ذرائع کے مطابق میاں شہباز شریف نے نواز لیگ کی قیادت کا یہ موقف حالیہ اہم ملاقاتوں میں پیش بھی کیا ہے۔ لیکن نواز شریف صرف اپنی سزا معافی کیلئے کوئی رعایت مانگنے کا تاثر پیدا نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ مریم نواز شریف کے ذریعے اپنی عدالتی جنگ لڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس پس منظر میں انہیں یہ بھی امید ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے انہیں اس کیس میں بھی ریلیف مل سکے گا۔ تاہم خواجہ حارث نیب عدالت کے فیصلے کے خلاف امکانی طور پر اپیل ماہ جنوری کے پہلے ہفتے میں کریں گے۔
ادھر کوٹ لکھپت سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق نواز شریف کو جیل انتظامیہ نے اس سیکورٹی وارڈ میں منتقل کر دیا ہے جس میں اس سے پہلے سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وفاقی وزیر جاوید ہاشمی بھی رہ چکے ہیں۔ اس سیکورٹی وارڈ کو ’’اے‘‘ کلاس والے قیدی یا قیدیوں کیلئے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ ڈیڑھ سے پونے دو کنال کے کمپائونڈ میں ایک بڑا کمرہ اور چھوٹا ہال کمرہ ہے، جس کے ساتھ اٹیچ باتھ اور کچن ہے۔ جبکہ ایک چھوٹا کمرہ بھی اس کے ساتھ ملحق ہے جس میں بیڈ رکھا گیا ہے۔ اس رہائشی حصے کے دونوں اطراف میں لان ہے لیکن اہم بات یہ کہ اس کمپائونڈ کے بڑے کمرے کا دروازہ ساتھ جڑے پھانسی گھاٹ کے عین سامنے ہے، جہاں سے پھانسی گھاٹ کا منظر ہر وقت سامنے رہتا ہے۔ ’’اے‘‘ کلاس کے اس سیکورٹی وارڈ کے دونوں لائنز سے بھی پھانسی گھاٹ کا منظر سامنے ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق جیل میں میاں نواز شریف کو دیگر سہولیات کے علاوہ ایک قیدی مشقتی بھی دیا گیا ہے، لیکن نواز شریف اس سے خدمت لینے سے گریزاں ہیں۔ لیگی ذرائع نے بتایا ہے کہ میاں نواز شریف اپنا ناشتہ جیل میں خود تیار کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جمعہ کے روز انہوں نے اپنے لیے انڈے بھی خود ابالے تھے۔
ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف نے صبح کا ناشتہ خود تیار کرنے کا اہتمام اس لیے بھی کیا ہے کہ خود کو مصروف رکھ سکیں۔ تاہم دوپہر اور رات کا کھانا جاتی امرا سے ان کی رہائش گاہ سے تیار ہو کر آتا ہے۔ دوپہر کو گرما گرم کھانا الگ سے آتا ہے اور رات کیلئے الگ سے کھانا تیار ہو کر آتا ہے۔ اس کھانے میں میاں نواز شریف کے پسند اور ذوق کے مطابق کھانا شامل ہوتا ہے۔ دوسری جانب جیل کے ذرائع کے مطابق ’’اے‘‘ کلاس کے اس سیکورٹی وارڈ میں آصف علی زرداری اور جاوید ہاشمی کو بھی فریج کی سہولت دی گئی تھی، اس لئے یقیناً میاں نواز شریف کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ جیل ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف کو جس کمپائونڈ میں رکھا گیا ہے اس کے دروازے کے دونوں اطراف میں سے ایک طرف آہنی سلاخوں والا دروازہ موجود تھا۔ اب ایک نیا دروازہ ’’اے‘‘ کلاس کے اس کمپائونڈ سے پہلے بھی لگا دیا گیا ہے تاکہ اس جانب عام قیدی نہ آسکیں اور سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہ بنے۔ ذرائع کے مطابق صبح آٹھ بجے کے قریب جیل کا کوڑا اٹھانے والا ٹرک میاں نواز شریف کے کمپائونڈ کے سامنے سے گزرتا ہے اور قریب ہی قائم بڑے کوڑے دانوں سے کوڑا اٹھاتا ہے۔
’’امت‘‘ کو نواز لیگ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ میاں نواز شریف کی کوٹ لکھپت میں ملاقات اب صرف جمعرات کے دن ہی نہیں ہو گی بلکہ ہفتے کے روز بھی ہوا کرے گی۔ پہلے پہر سیاسی لوگ ملاقاتیں کریں گے اور سہ پہر کے وقت اہل خانہ ملاقات کر سکیں گے۔ تاہم ملاقات اسی فرد کی ہو سکے گی جس سے میاں نواز شریف ملنا چاہیں گے یا جسے ملاقات کیلئے خود بلائیں گے۔

Comments (0)
Add Comment