تابعین کے ایمان افروزواقعات

قسط نمبر24
یہ ساری باتیں سن کر ایاس بن معاویہؒ امیر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے:
’’اے امیر! اصل بات میں آپ کو بتلاتا ہوں، وہ یہ کہ آپ نے ایک اہم شخص کو بلا کر ان کو قاضی بننے کی دعوت دی، لیکن انہوں نے اس سے جان چھڑانے کے لیے جھوٹی قسم کھائی، یہ سوچ کر کہ پھر خدا تعالیٰ سے معافی مانگ لے گا، لیکن قاضی بننے کی مصیبت کون لے گا۔ ہر وقت ڈر لگا رہے کہ نفس لالچ میں آکر پھسل نہ جائے وغیرہ وغیرہ۔‘‘
لہٰذا اصل حق دار قاضی بننے کے قاسم ہی ہیں۔
یہ بات سن کر گورنر عدی نے حضرت ایاسؒ سے کہا:
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ جیسا ذہین و فطین ہی قاضی کے منصب پر فائز ہونا چاہئے، جو اتنی باریکی کی بات سمجھ لیتا ہے، وہی اس قابل ہے کہ اس کو بصرہ کا قاضی بنایا جائے۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ یہ کون شخص ہے، جس کا انتخاب امیرالمؤمنین عمر بن عبدالعزیزؒ نے بصرہ کا قاضی مقرر کرنے کے لیے کیا؟
اس شخص کی ذہانت اور قوت فہم (معاملہ کو گہرائی تک سمجھنا) اسی طرح مشہور اور ضرب المثل تھی، جس طرح حاتم طائی کی سخاوت، احنف بن قیس کی بردباری، عمرو بن معدی کربؓ کی شجاعت ضرب المثل تھی۔
جیسا کہ ابوتمام نے احمد بن المعتصم کی تعریف میں کہا تھا:
ترجمہ: ’’عمرو کا حاتم کو معاف کر دینا یہ حلم (بردباری) میں احنف اور ذکاوت (ذہانت) میں ایاس کی طرح ہے۔‘‘
تعارف:
حضرت ایاس بن معاویہؒ نجد کے علاقے یمامہ میں پیدا ہوئے اور اپنے خاندان کے ساتھ بصرہ منتقل ہوئے، وہیں نشوونما پائی اور تعلیم حاصل کی، نوجوانی کی عمر میں کئی بار دمشق جانے کا اتفاق ہوا۔
جو صحابہ کرامؓ زندہ تھے، ان سے اور جو بڑے درجے کے تابعین تھے، ان سے علم حاصل کیا۔ بچپن ہی سے ان کے چہرے پر شرافت اور سمجھ داری کے آثار ظاہر تھے اور لوگ ان کی مثالیں دیا کرتے تھے، جبکہ ابھی ان کی عمر بہت کم تھی۔
بچپن میں ایک یہودی کو لاجواب کرنا:
حضرت ایاس بن معاویہؒ ایک یہودی کے اسکول میں ریاضی (حساب) پڑھا کرتے تھے، ایک دن استاد کے پاس اس کے چند یہودی دوست ملنے آئے، وہ دین اسلام کے متعلق باتیں کرنے لگے اور حضرت ایاس بن معاویہؒ پاس کھڑے خاموشی سے سنتے رہے، وہ لوگ یہ سمجھے کہ یہ اپنا کام کررہا ہوگا اور یہ بچہ ہے ہماری باتیں نہیں سمجھے گا۔
استاد نے اپنے ساتھیوں سے کہا:
’’مسلمان بھی کیا عجیب ہیں کہتے ہیں جنت میں جی بھر کر کھائیں گے، لیکن بول و براز (گندگی) نہیں آئے گا، بھلا یہ بھی ہو سکتا ہے کیسی عجیب باتیں کرتے ہیں۔‘‘
حضرت ایاس بن معاویہؒ نے کہا: کیا مجھے بھی بات کرنے کی اجازت ہے؟
استاد نے کہا: ہاں! کیوں نہیں، کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟
انہوں نے پوچھا: کیا اس دنیا میں جو کچھ کھایا جاتا ہے، وہ تمام کا تمام بول و براز (گندگی) کے ذریعے بدن سے نکل جاتا ہے؟
استاد نے کہا: نہیں۔
حضرت ایاسؒ نے پوچھا: جو کھانا بدن سے نہیں نکلتا وہ کہاں جاتا ہے؟
استاد نے کہا: وہ ہضم ہو کر جزو بدن بن جاتا ہے۔
حضرت ایاسؒ نے کہا: اگر وہ تمام کا تمام جنت کے ماحول کو پاکیزہ اور صاف ستھرا رکھنے کے لیے جزو بدن بنا دیا جائے، تو آپ کو اس بات پر کیا تعجب ہے؟ اس بات سے ان پر سناٹا چھا گیا اور وہ ہکا بکا رہ گیا۔
استاد نے اپنے ہونہار شاگرد کا ہاتھ بھینچتے ہوئے کہا:
’’ارے جوان! بہت خوب۔ دوستوں کے سامنے تو نے مجھے لاجواب کردیا، تیری ذہانت اور حاضر جوابی کی کیا بات ہے۔‘‘
حاضر جوابی:
جس طرح یہ نوجوان عمر میں سال بسال بڑھتا گیا، اسی طرح اس کی ذہانت اور حاضر جوابی بھی بڑھتی گئی، جب یہ دمشق پہنچا تو وہاں ایک بوڑھے آدمی سے اس نوجوان کا اختلاف ہوگیا، جب وہ کسی بھی دلیل سے اس نوجوان کو مطمئن نہ کر سکا تو اس نے نوجوان کو قاضی کے پاس آنے کی دعوت دی، جب دونوں عدالت میں حاضر ہوئے تو نوجوان کی آواز تیز ہو گئی تو قاضی نے کہا: ’’بیٹا! آہستہ بولو۔ تمہارے مقابلے میں ایک عمر رسیدہ قابل احترام بزرگ کھڑے ہیں۔‘‘
حضرت ایاسؒ نے کہا: حق ان سے بھی زیادہ قابل احترام ہے۔
قاضی صاحب کو اور زیادہ غصہ آیا اور کہا: ’’تم خاموش ہو جائو۔‘‘
تو نوجوان ایاسؒ نے کہا: جناب والا اگر میں خاموش ہوگیا تو میرا مقدمہ آپ کی عدالت میں کون پیش کرے گا؟
قاضی کو اور زیادہ غصہ آیا اور اس نے کہا:
جب سے تم عدالت میں آئے ہو الٹی سیدھی باتیں بولے ہی جارہے ہو۔
نوجوان ایاسؒ نے چوتھا کلمہ پڑھا اور پوچھا: یہ کلمہ شہادت حق ہے یا باطل؟
قاضی یہ بات سن کر ٹھنڈا ہو گیا اور بولا: ’’رب کعبہ کی قسم یہ کلمہ بالکل برحق ہے۔ ہم سب خدا کے عاجز بندے ہیں اور اس کے سامنے جواب دہ ہیں۔ چلو میں تمہاری بات بھی سن لیتا ہوں۔‘‘ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment