مخلصانہ عبادت کاصلہ

حضرت علامہ شاہ مراد سہروردیؒ سیر الاخیار میں فرماتے ہیں کہ حضرت مالک بن دینارؒ بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ ابتدا میں بڑے دولت مند اور وجیہہ تھے، آپ کی آرزو تھی کہ جامع مسجد دمشق کی تولیت حاصل ہو جائے، کیونکہ یہ شاہی مسجد تھی اور اس کے ساتھ بڑی جائیداد وقف تھی، جبکہ اس کا متولی بڑے اعزاز و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لئے حرص عہدہ میں آپ اس مسجد میں جا کر معتکف ہوگئے اور پورے ایک سال تک مصروف عبادت رہے تاکہ لوگ آپ کو ہر وقت نماز میں مشغول پا کر خلیفہ سے آپ کے تقدس کا ذکر کریں اور آپ کو تولیت کا اعزاز حاصل ہوجائے۔
ایک روز آپ نے دل میں کہا کہ میں ایک سال سے منافقانہ عبادت کر رہا ہوں اور یہ بہت شرمناک حرکت ہے، کیوں نہ مخلصانہ عبادت کروں۔ دوسرے روز آپ نے خود بخود توبہ کر لی، اس روز آپ نے مخلصانہ عبادت کی ۔ جب کوئی خدا کا ہو جاتا ہے تو خدا ضرور اسے نوازتا ہے۔ چنانچہ دوسرے روز لوگوں نے ایک متولی کی ضرورت محسوس کی اور آپ کے پاس آئے کہ آپ اس مسجد کی تولیت قبول کر لیں۔
آپ نے دل میں کہا کہ بارالٰہا میں ایک رات تیری طرف دل سے متوجہ ہوا تو نے اکھٹے بیس آدمی میرے پاس بھیج دیئے۔ اب میں بھی تیرا ہی ہو کر رہوں گا۔ چنانچہ آپ مسجد سے اسی وقت اٹھ کر چلے آئے اور تولیت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
دل کی دنیا بدل چکی تھی، آپ سب کچھ چھوڑ کر عبادت الٰہی میں مصروف ہوگئے۔ اکثر کو روزے رکھتے تھے، رات کو نماز میں مصروف رہتے۔ کئی سال تک متواتر یہی دستور رہا کہ آپ نان بائی کی دکان پر جا کر صرف ایک روٹی خرید لیتے اور اس سے روزہ افطار کرتے۔ آپ کا نفس برابر گوشت کی آرزو کرتا رہتا، مگر بیس سال تک آپ نے گوشت کو ہاتھ نہ لگایا، چالیس سال بصرہ میں رہے خرمے کو ہاتھ نہ لگایا، زہد و اتقا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ آگے چل کر صاحب سیرا لاخیار فرماتے ہیں:
جب آپ سورۃ فاتحۃ کی چوتھی آیت پڑھتے تو زارو زار روتے اور فرماتے کہ اگر یہ آیت قرآن شریف میں نازل نہ ہوتی، تو میں اسے کبھی نہ پڑھا کرتا، کیوںکہ کہتے ہیں کہ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں‘‘ اور پوجتے نفس کو ہیں۔ کہتے تو ہیں کہ ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور لوگوں کے دروازے پر جاتے ہیں اور ان کا شکریہ اور شکایات کرتے ہیں، افسوس نعمت تو خدا کی کھاتے ہیں اور فرمانبرداری شیطان کی کرتے ہیں۔ فرمایا کہ اس دنیا سے بچو کہ اس نے علما تک کے دل مسخر کر لئے ہیں، میرے نزدیک سب سے بہتر عمل اخلاص ہے۔
حضرت مالک بن دینارؒ نے فرمایا: ایک روز میں ایک قریب الموت شخص کی عیادت کو گیا۔ میں نے بار بار کلمہ شہادت پڑھنے کو کہا، مگر زبان سے نہ نکلتا تھا۔ بولا یا شیخ ایک پہاڑ ہے جو کلمہ کا قصد کرتے ہی میری طرف بڑھتا ہے، پوچھا تیرا پیشہ کیا تھا؟ بولا فروخت مال میں دھوکے سے کام لیتا۔ کم دیتا اور کم تولتا تھا۔ فرمایا خدا تعالیٰ نے امت محمدی کو دو ایسی چیزیں عطا کیں جو کسی کو بھی اس سے بیشتر نہ ملی تھیں۔ ایک ’’تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا‘‘ (القرآن) دوسری ’’جب تم دعا مانگو گے قبول کروں گا‘‘ (القرآن)
فرمایا حق تعالی کا ارشاد ہے کہ جو عالم دنیا کو دوست رکھتا ہے۔ سب سے کم پاداش اسے جو ملتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے دل سے ذکرو مناجات کی حلاوت فنا کر دیتا ہے۔
ایک شخص نے آپ سے نصیحت کی استدعا کی۔ فرمایا کارساز حقیقی کی کارسازی پر راضی رہو تاکہ تمہیں نجات حاصل ہو۔
حضرت مالک بن دینارؒ کے پڑوس میں ایک شخص رہتا تھا جو نہایت سخت گیر اور با اقتدار تھا۔ آپ کو بھی اس سے تکلیف پہنچی تھی۔ مگر آپ ہمیشہ صبر سے کام لیتے تھے اور کبھی کسی سے کچھ نہ کہتے تھے۔ ایک روز چند افراد نے آپ سے آکر کہا کہ یہ شخص ہمیں بہت تنگ کرتا ہے۔ آپ اس کو سمجھانے گئے تو اس نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں بادشاہ کا خاص آدمی ہوں۔ کسی کی مجال نہیں جو مجھے کچھ کہہ سکے، فرمایا تو میں بادشاہ ہی سے شکایت کروں گا۔
بولا کردیجئے، مگر بادشاہ نہ سنے گا، فرمایا تو رحمٰن کریم سے شکایت کی جا سکتی ہے، بولا جناب وہ بے حد مہربان اور رحیم ہے، وہ مجھے ہر گز اپنی گرفت میں نہ لے گا، مجبور ہو کر آپ واپس چلے آئے۔ مگر جب اس کے مظالم حد سے زیادہ متجاوز ہو گئے تو کچھ لوگ پھر اس کی شکایت لے کر آپ کے پاس آئے۔ اس مرتبہ آپ نے سخت تنبیہہ کرنے کا عہد کر لیا اور اسی عزم و ارادے سے آپ روانہ ہوئے۔ لیکن آپ کی حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی جب آپ نے ایک غیبی آواز سنی کہ دیکھو مالک وہ ہمارا دوست ہے، اس سے کچھ نہ کہنا۔ آپ اس کے پاس پہنچے تو بولا اچھا اب آپ پھر دوبارہ میرے پاس آئے۔
فرمایا: آیا تو ہوں۔ مگر اس دفعہ آنے کا مقصد یہ ہے کہ میں تجھے ایک نئے معاملے سے آگاہ کروں، اس کے بعد آپ نے آواز کے متعلق کیفیت بیان کی۔ بولا اچھا یہ بات ہے اور وہ مجھے دوست کہتا ہے۔ تو میں بھی دوست کی راہ میں سب کچھ نثار کئے دیتا ہوں۔ یہ کہا اور سب کچھ لٹاتا ہوا جنگل کو نعرے مارتا ہوا نکل گیا۔ ایک عرصے کے بعد آپ نے اسے مکہ معظمہ میں دیکھا۔ آخری وقت تھا اور کہہ رہا تھا کہ اس نے مجھے دوست بنایا تھا۔ میں بھی دوست کی راہ میں نکلا اور اس کی رضا و اطاعت میں زندگی ختم کر دی یہ کہا اور دم توڑ دیا۔

Comments (0)
Add Comment