14ھ بعد بعثت میں سرور دو عالمؐ مکہ سے ہجرت فرما کہ مدینہ تشریف لے گئے، اس وقت حضرت اسامہؓ کی عمر سات برس کے قریب تھی۔ وہ اپنی والدہ حضرت ام ایمنؓ کے ساتھ مکہ ہی میں مقیم رہے، البتہ ان کے والد حضرت زیدؓ بن حارثہ 13ھ بعد بعثت کے اواخر میں حضور اقدسؐ کی مرضی پر ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ ہجرت نبویؐ کے چند ماہ بعد حضور اقدسؐ نے حضرت زیدؓ کو مکے بھیجا، وہ ام المومنین حضرت سودہؓ اور حضور اقدسؐ کی دو صاحبزادیوں حضرت فاطمۃ الزہراؓ اور حضرت ام کلثوم ؓ کے علاوہ حضرت ام ایمنؓ اور حضرت اسامہؓ کو بھی اپنے ساتھ مدینہ لے گئے۔
سفر ہجرت میں حضور اقدسؐ کی ہم رکابی کا شرف صرف حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عامرؓ بن فہیرہ کو حاصل ہوا۔ عہد رسالت کے ابتدائی غزوات کے وقت حضرت اسامہؓ کم عمر تھے۔ ان غزوات میں شریک ہونے کے آرزو مند تھے، لیکن ان کی کم عمری کے پیش نظر حضور اقدسؐ نے اجازت نہ دی۔ تاہم آپ کا سحاب لطف و کرم حضرت اسامہؓ پر ہمیشہ برستا رہتا تھا۔ حضور اقدسؐ کے نواسے سیدنا حضرت حسنؓ 3ھ میں اور سیدنا حضرت حسینؓ 4ھ میں پیدا ہوئے، ہجرت کے پہلے سال حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی حریم نبوی میں آچکی تھیں۔ یہ تمام ہستیاں حضور اقدسؐ کو بہت محبوب تھیں، لیکن آپؐ اپنی محبت اور شفقت میں حضرت اسامہؓ کو بھی برابر شریک رکھتے تھے۔ وہ اگرچہ دس گیارہ برس کے ہوگئے تھے، لیکن کاشانہ نبویؐ میں آزادانہ آتے جاتے تھے، حضور اقدسؐ کبھی کبھی ازراہ شفقت ان سے مزاح بھی فرماتے تھے۔
طبقات ابن سعد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اسامہؓ کاشانہ نبوی میں بیٹھے تھے، حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی موجود تھیں، حضور اقدسؐ حضرت اسامہؓ کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور حضرت عائشہؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
’’عائشہ اگر یہ لڑکی ہوتا تو میں اس کو خوب زیور پہناتا اور بناتا سنوارتا تاکہ اس کے حسن و جمال کی شہرت ہوتی اور لوگ جگہ جگہ سے اس کے رشتے کے لیے پیغام بھیجتے۔‘‘
ایک مرتبہ حضرت اسامہؓ دروازے کی چوکھٹ پھلانگتے ہوئے گر پڑے اور ان کے ماتھے سے خون بہنے لگا۔ حضور اقدسؐ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا کہ اس کا خون صاف کرو۔ انہوں نے خون سے کچھ کراہت محسوس کی تو آپؐ نے خود اٹھ کر صاف کردیا اور زخم پر اپنا لعاب دہن لگایا۔
مسند احمدؒ میں خود حضرت اسامہؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدسؐ مجھے پکڑتے اور اپنی دائیں ران پر بٹھاتے اور حضرت حسنؓ بن علیؓ کو پکڑتے اور اپنی بائیں ران پر بٹھاتے، پھر ہم دونوں کو ملا کر دعا کرتے ’’الٰہی میں ان دونوں پر رحم کرتا ہوں، تو بھی ان پر رحم فرما۔‘‘
صحیح بخاری میں ہے کہ حضور اقدسؐ وضو فرماتے تو اسامہؓ کو اکثر پانی ڈالنے کی سعادت نصیب ہوتی تھی، حضور اقدسؐ ان کو اکثر سفر میں بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
5ھ ہجری میں غزوئہ بنو مصطلق کے موقع پر افک کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا، اس میں رئیس المنافقین ابن ابی ابن سلول اور بعض دوسرے لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ پر ناپاک تہمت لگائی۔ اس تہمت طرازی سے حضور اقدسؐ کو قدرتاً ملال ہوا۔ گو ام المومنینؓ کی بے گناہی مسلم تھی، لیکن تہمت لگانے والوں کا منہ بند کرنے کے لیے تحقیق ضروری تھی۔ چنانچہ آپؐ نے اس سلسلے میں بعض صحابہؓ اور صحابیاتؓ سے مشورہ کیا۔ ان میں بارہ سالہ حضرت اسامہؓ بھی شامل تھے۔ چونکہ کاشانہ نبویؐ میں ان کا گھر کے افراد کی طرح آنا جانا تھا، اس لیے ان کی رائے خاص اہمیت کی حامل تھی۔
حضرت اسامہؓ نہایت صادق القول تھے۔ انہوں نے پرزور طریقے سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی پاک دامنی اور ارفع و اعلیٰ کردار کی شہادت دی۔ ساتھ ہی حضورؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپؐ بالکل ملول نہ ہوں۔ حق تعالیٰ خود تہمت طرازوں کے جھوٹ کا پردہ چاک کردے گا۔
حضرت اسامہؓ کا قیاس درست ثابت ہوا اور آیات برأت نازل ہوئیں جن میں حق تعالیٰ نے ام المومنینؓ کی پاک دامنی کی تصدیق کردی۔
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت اسامہؓ کو بارگاہ نبویؐ میں جو خصوصیت حاصل تھی، اس کی بنیاد پر منافقین ان سے بہت حسد کرتے تھے اور ان کے نسب میں تہمت لگاتے تھے، حضورؐ تک ان کی باتیں پہنچتیں تو آپؐ کو بہت رنج ہوتا۔ اسی زمانے میں ایک دن عرب کا ایک مشہور قیافہ شناس مجزز مدلجی (یا اسلمی) حضور اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت حضرت اسامہؓ اپنے والد حضرت زیدؓ بن حارثہ کے ساتھ ایک چادر اوڑھے سو رہے تھے۔ دونوں کے پائوں البتہ چادر سے باہر تھے۔ مجزز نے پائوں دیکھ کر کہا کہ یہ پیر ایک دوسرے سے پیدا ہیں۔ یہ سن کر حضور اقدسؐ بہت خوش ہوئے، ہنستے ہوئے حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا تم نے سنا مجزز نے ابھی اسامہؓ اور زیدؓ کے پائوں دیکھ کر کہا کہ یہ ایک دوسرے سے پیدا ہیں۔ شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ حضور اقدسؐ کی مسرت کا یہ سبب تھا کہ مجزز نے جو کچھ کہا، اس کی وجہ سے حاسدوں کے منہ بند ہوگئے، کیونکہ ان کے نزدیک قیافہ شناسوں کی باتیں الہام کا درجہ رکھتی تھیں۔ ورنہ حضور اقدسؐ کی شان اس سے بہت بلند تھی کہ آپؐ کو قیافہ شناسوں کی احتیاج ہو۔