قسط نمبر: 215
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میری فرمائش پر ظہیر نے دونوں تھیلے نکال کر سامنے رکھ دیئے۔ سرخ پوٹلی میں موجود رقم کی مالیت سے ہم سب واقف تھے۔ لہٰذا ہم نے اس پر توجہ نہیں دی۔ تکیے کے لحاف میں موجود خزانہ ظہیر نے پلنگ کے بستر پر الٹا تو ان دونوں کے علاوہ میری آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ سامنے ڈھیر رقم اور زیورات کی تعداد اور مقدار میرے اندازے سے کہیں زیادہ تھی۔ یہی نہیں، تجوری کے اندرونی خانوں سے برآمد ہونے والی دو ڈوری دار مخملیں تھیلیاں الٹی گئیں تو ان میں سے پچاس پچاس طلائی سکے برآمد ہوئے۔ جن میں سے ہر ایک کا وزن ایک تولہ تھا۔
میں نے اندازہ لگایا کہ ہمارے ادا کردہ پچاس ہزار روپے کے علاوہ بھی کم ازکم ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا خزانہ ہمارے ہاتھ لگا ہے۔ ان تینوں نے بھی میری تصدیق کی۔ میں نے ظہیر کو کہا۔ ’’یار یہ تو کمال ہوگیا۔ اب تو کوئی شک نہیں کہ کشمیر پر قابض بد بختوں کا برا وقت قریب آگیا۔ کم ازکم وسائل کی تنگی اب تمہارے جہاد کی راہ میں حائل نہیں ہوگی۔ ایسا کرو کہ سب سے پہلے یاسر بھائی سے ادھار لی گئی رقم انہیں واپس کردو‘‘۔
میری بات سن کر ظہیر نے اثبات میں گردن ہلائی۔ لیکن یاسر نے شدید صدائے احتجاج بلند کی۔ ’’یہ تو سراسر زیادتی ہے بھائی۔ آپ لوگ جس عظیم مقصد کے لیے جان کی بازی لگاتے پھر رہے ہیں، اس میںکیا ہم اپنے پاس موجود رقم کے ذریعے بھی حصہ دار نہیں بن سکتے؟‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے تو کوئی اعتراض نہیں، ویسے بھی یہ اب آپ سب کشمیریوں کا آپس کا معاملہ ہے‘‘۔
اس پر ظہیر نے قہقہہ لگایا اور ناصر نے یاسر کے ساتھ مل کر اس کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد ظہیر نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔ ’’چلیں ٹھیک ہے، ہم آپس میں مل کر فیصلہ کرتے رہیں گے، پہلے آپ اپنی رقم الگ کرلیں‘‘۔
قہقہہ لگانے کی باری اب میری تھی۔ میں نے کہا۔ ’’یہ رقم مجھے اس نسلِ حرام مٹھو سنگھ کو دینی تھی۔ میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ اس غلیظ انسان کے قبضے میں جانے کے بجائے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد جیسے عظیم مقصد کے لیے کام آجائے۔ ویسے بھی یہ ساری رقم میں نے یہیں سے ہتھیائی ہے۔ اس پر میرا کیا حق بنتا ہے؟ اور ہاں، وہ طلائی ٹکیاں بھی اسی مقصد کے لیے استعمال ہوں گی‘‘۔
انہوں نے شدید اصرار کیا، لیکن میں نے محض گزارے لائق رقم قبول کرنے پر اکتفا کیا۔ اس اثنا میں خادمہ ہمیں بلانے آگئی۔ ایک ہال نما کمرے میں فرشی دستر خوان پر خاصا پُر تکلف کھانا سجا ہوا تھا۔ رخسانہ اور جمیلہ نے باضابطہ طور پر میزبانی کے فرائض سنبھال لیے تھے۔ ہم سب نے مل کر کھانا کھایا۔ کھانے کے دوران ہلکی پھلکی باتیں بھی ہوتی رہیں۔
ایک خیال آنے پر میں نے رخسانہ سے پوچھا۔ ’’آپ لوگوں سے آپ کی بڑی بہن شازیہ کے بارے میں اب تک تفصیل سے بات نہیں ہو سکی۔ مجھے پتا ہے کہ یہ ذکر آپ دونوں کے لیے اذیت ناک ہے۔ لیکن میں آپ سے درخواست کرنے پر مجبور ہوں کہ ان پر جو کچھ بیتی، سب زیادہ سے زیادہ تفصیل سے ہمیں بتائیں، تاکہ ہم معاملے کو پوری طرح سمجھ سکیں اور اس کے مطابق اپنا لائحہ عمل مرتب کر سکیں‘‘۔
ظہیر، ناصر اور یاسر بھی یہ سب سن کر چونکے اور پھر پوری طرح رخسانہ اور جمیلہ کی طرف متوجہ ہوگئے، جو میری بات سن کر بُت بنی دکھائی دے رہی تھیں۔ مختصر لیکن کڑے انتظار کے بعد بالآخر جمیلہ نے غم میں ڈوبے لہجے میں کہا۔ ’’ہمارے پاس شازیہ باجی کے حوالے سے بتانے کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ایک روز شاید خواب آور دوا رات کے کھانے میں ہم تینوں کوکھلائی گئی تھی۔ ہم تینوں کھانا ختم ہونے سے پہلے ہی بے ہوش ہوکر گر گئی تھیں۔ صبح ہم دونوں کی آنکھ کھلی تو اسی طرح فرش پر ڈھیر تھیں اور باجی کمرے سے غائب تھیں۔ اس کے بعد وہ ہمیں کبھی نہیں ملیں‘‘۔
آخری الفاظ اداکرتے کرتے جمیلہ کی آواز بری طرح بھراگئی تھی، لہٰذا اس کی بات مجبوراً رخسانہ نے مکمل کی۔ ’’ہمیں بالکل نہیں پتا کہ ان پر کیا گزری۔ ہم دونوں بہت روئیں، چلائیں۔ بار بار شدید احتجاج کیا۔ بھوک ہڑتالیں کیں، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی‘‘۔
میں نے مضطرب لہجے میں پوچھا۔ ’’یہ کتنے پہلے کی بات ہے؟‘‘۔
جمیلہ نے کہا۔ ’’تقریباً چھ ماہ پہلے کی۔ مجھے یاد ہے اس روز ساون کی پہلی بارش ہوئی تھی اور باجی دن بھر بے تاب اور بے کل رہی تھیں کہ انہیں کھلے صحن یا چھت پر بارش سے لطف اندوز ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ انہیں بچپن میںکی گئی اپنی یہ چھوٹی سی عیاشی یاد تھی۔ ہمیں تو کبھی موقع ہی نہیں مل سکا‘‘۔ اس کے لہجے میں بلا کی اداسی تھی۔ میں نے اس کی دل جوئی کی۔ ’’فکر نہ کرو، اب تم ہر موسم، آزادی کے ہر لمحے سے پوری طرح لطف اٹھا سکو گی‘‘۔ پھر میں نے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے پوچھا۔ ’’اس کا مطلب ہے انہیں دھوکے سے اغوا کیا گیا تھا۔ اس کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ ان شیطانوں کو خدشہ ہوگا کہ تم تینوں بہنیں ایک دوسرے سے جدا کیے جانے پر سخت مزاحمت کرو گی‘‘۔
رخسانہ نے تائید میں گردن ہلائی۔ ’’ہاں، ہم ہمیشہ اکٹھی رہتی تھیں اور کہیں بھی ایک ساتھ جاتی تھیں۔ ایک بار جمیلہ کو بخار ہوگیا تھا۔ شیامک نے اسے تنہا ڈاکٹر کے پاس لے جانے پر اصرار کیا تھا تو باجی نے صاف انکار کر دیا اور جب شیامک نے ضد کی تو اسے سر توڑنے کی دھمکی دی۔ مجبوراً وہ کیفیت بتاکر دوائی لے آیا تھا۔ دراصل ہم تینوں نے پختہ عزم کر رکھا تھا کہ ہم اپنی عزت کی خاطر جان دے دیں گی‘‘۔
میں نے اس کی بات غور سے سنی۔ میں مزید کچھ پوچھنا ہی چاہتا تھا کہ ظہیر نے رخسانہ کو مخاطب کر کے سوال کیا۔ ’’آپ کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی بہن شازیہ کے اغوا میں اس شیامک کا مرکزی کردار رہا ہوگا‘‘۔ (جاری ہے)