قسط نمبر: 27
محمد فاروق
محمد فاروق اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رہنما ہیں۔ برطانیہ میں مقیم محمد فاروق نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ جو نہ صرف ایک عہد کی آئینہ دار ہے، بلکہ اس میں شریعت و تصوف کے امتزاج کی لطافت بھی جابجا ملتی ہے۔ قارئین کیلئے ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے منتخب ابواب پیش کئے جارہے ہیں۔
امین احسن اصلاحیؒ کے اس خط کے موصول ہونے کے بعد سید مودودیؒ نے ایک بار پھر جماعت کی امارت سے استعفیٰ دیا۔ اس طرح یہ بحران جس کا آغاز جائزہ کمیٹی کی رپورٹ کے بعد شروع ہوکر شوریٰ کی طرف سے اس پر غور و خوض اور ایک مصالحتی قرارداد پاس کرنے کے بعد بظاہر ختم ہوا تھا، سید مودودیؒ کی طرف سے جائزہ کمیٹی کیخلاف اس ’’راست اقدام‘‘ اور اصلاحی صاحب کے خط کے جواب میں سیدؒ کے دوبارہ استعفیٰ نے ایک بار پھر اپنی انتہا پر پہنچادیا۔
جیسا کہ اوپر کی سطور میں ہم نے اشارہ کیا تھا کہ ہم سید مودودیؒ کے اس اقدام کے پیچھے اس ’’اصل‘‘ محرک کو تلاش کریں گے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آخر وہ کون سے حالات یا کیا ممکنہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے سید مودودیؒ جیسی شخصیت جو اپنی ذات میں صبر و ثبات، ہوشمندی اور معاملات میں ہمیشہ غیر جذباتی اور عقلی اپروچ رکھنے کا ملکہ رکھتی تھی، اس خالص جذباتی اور ہنگامی قسم کے اقدام پر مجبور ہوئی۔
میرے لئے ذاتی طور پر یہ ہمیشہ دلچسپی اور کسی حد تک پریشانی اور کرید کا سوال تھا کہ سید مودودیؒ کے ہاتھوں غیر معمولی اقدام کی وجہ سے اتنا بڑا نقصان کیوں ہوا؟ اور ایسی کیا مجبوری سیدؒ کو لاحق ہوگئی تھی کہ اس کام کے کر گزرنے کے بغیر چارہ نہ تھا؟ آخر کار ارکان جماعت اسلامی کے ایک بزرگ اور پرانے رکن جماعت اسلامی سوات کے حاجی عثمان غنی مرحوم سے ایک ملاقات میں اس اصل محرک کی ایک کڑی میرے ہاتھ آگئی۔ جو سید مودودیؒ کی طرف سے اس اقدام کا سبب بنی تھی۔ حاجی عثمان غنی مرحوم جماعت کے دیرینہ اور سوات کے اولین نظریاتی ارکان میں سے تھے اور اس تحریک کی خاطر حکومت وقت کے عتاب کے شکار ہو کر مختلف مواقع پر سخت صعوبتوں سے گزر چکے تھے۔ ان کا اخلاص اور جماعت کے ساتھ نظریاتی وابستگی کسی شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ ان کہنا یہ تھا کہ جائزہ کمیٹی کے ارکان جب جماعت اسلامی کے ارکان سے ملاقاتوں کیلئے پاکستان کے دورے پر نکل پڑے تو ہر رکن سے ملاقات میں انہوں نے صرف اس بات پر اکتفا نہیں کیا کہ رکن جماعت کی بے چینی کے وجوہات پوچھتے اور اصلاح احوال کیلئے اس کے تجاویز لیتے۔ بلکہ آگے بڑھ کر جائزہ کمیٹی کے بزرگ پہلے ہر رکن کو اس بات پر مطمئن کرنے کیلئے اسے قائل کرنے کی کوشش کرتے کہ جماعت اسلامی کے اندر پیدا ہونے والی خرابیاں خالص اس وجہ سے ہیں کہ ہم نے ’’دعوت‘‘ کے بجائے ’’انتخابی سیاست‘‘ کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ پیدا ہونے والی خرابیوں کا علاج صرف اس طرح ممکن ہے کہ ہم انتخابی سیاست سے رجوع کرکے اپنے آپ کو خالص دعوت تک یکسو کردیں۔ اور سیاست سے ہماری وابستگی اگر ہو بھی تو فی الحال بالواسطہ قسم کی ہو۔ نہ کہ براہ راست۔
حاجی صاحب فرماتے ہیں کہ صوبہ سرحد کے ارکان سے ملاقاتوں کیلئے جب یہ کمیٹی پشاور پہنچی تو سارے صوبے کے ارکان کو وہاں جاکر باری باری کمیٹی کے سامنے پیش ہونا تھا۔ ہر رکن کی ملاقات میں اچھا خاصا وقت صرف ہوتا تھا… اور بعض اراکین جب باہر نکلتے تھے تو ان کی پیشانیوں سے اصطراب واضح طور پر عیاں ہوتا تھا۔ جب میری باری آئی تو کوئی سوال پوچھے بغیر ارکان میں سے ایک بزرگ کی جانب سے گفتگو کا آغاز اس طرح ہوا کہ: ’’دیکھو…! ہم خدا کو حاضر ناظر جان کر پورے اخلاص اور دلسوزی سے آپ سے پہلے ایک گزارش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ پہلے اس سے کہ آپ ہمیں اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔ ہماری درد مندانہ گزارش ہے کہ یہ کمیٹی اور اب تک ایک بہت بڑی تعداد ارکان جماعت کی اس بات پر اتفاق کر چکی ہے کہ جماعت کے اندر در آنے والی تمام خرابیوں کی اصل وجہ انتخابی سیاست میں ہماری شمولیت ہے۔ اگر آپ بھی ہمارے ساتھ اتفاق فرمائیں، تو ہم اس رپورٹ میں بھرپور طریقے سے جماعت کو انتخابی سیاست سے باہر نکالنے اور اس کو خالص دعوتی سرگرمیوں تک یکسو کرنے کے سفارشات مرتب کریں گے۔ یہ ہم سب اور جماعت کے مفاد میں ہوگا‘‘۔
حاجی صاحب فرماتے ہیں کہ جائزہ کمیٹی کے بزرگوں کا یہ انداز دیکھ کر پہلے تو مجھے حیرت ہوئی تھی۔ کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ شوریٰ کی طرف سے کمیٹی کیلئے مقرر کردہ حدود میں صرف ارکان جماعت کی آرا کو معلوم کرنا تھا، نہ کہ پہلے سے موجود رائے کے حق میں ان کو ہم خیال بنانا یا اس کے حق میں ارکان جماعت کی آرا کو ہموار کرانا…! کچھ توقف کے بعد میرے منہ سے بے اختیار یہ شعر نکلا:
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
میں نے کسی حد تک درشت لہجے میں عرض کیا کہ اگر آپ لوگ جماعت اسلامی کو تبلیغی جماعت جیسی کسی جماعت میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اتنی مشقت کی ضرورت کیا ہے… ہمارے سامنے تبلیغی جماعت پہلے ہی موجود ہے۔ ہم اس میں شمولیت کیوں اختیار نہیں کرتے۔ جماعت اسلامی میں تو ہم تب ہیں کہ یہاں پر بات زبانی دعوت و تبلیغ تک محدود نہیں رکھی گئی ہے، بلکہ آگے بڑھ کر اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی لانے کا انقلابی ایجنڈا بھی موجود ہے۔ آپ لوگ جس طریقے سے چاہیں، اس رپورٹ کو مرتب کریں، مجھے اس قسم کی جماعت یا کام میں کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ کہہ کر مزید کسی گفتگو کیلئے ٹھہرنے کے بجائے میں باہر نکل آیا۔
حاجی صاحب بتارہے تھے کہ ارکان جماعت کی ایک بہت بڑی اکثریت نے اپنے ساتھ پیش آنے والی اس صورت حال سے سید مودودیؒ کو خفیہ خطوط، اور کچھ ارکان نے حاضر ہو کر مطلع کیا تھا۔ یہ بات اس وقت میں بھول رہا ہوں کہ حاجی عثمان غنی مرحوم نے خود بھی سید مودودیؒ کو اس بارے میں خط لکھا تھا کہ نہیں…، بے شک وہ بہت اچھا لکھنے والے بھی تھے۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ جائزہ کمیٹی پر سید مودودیؒ نے اپنے دستوری حدود یا ’’مینڈیٹ‘‘ سے تجاوز کا جو الزام لگایا تھا، وہ محض ’’الزام‘‘ نہ تھا، بلکہ بدقسمتی سے ایک امر واقع تھا۔
اسی گواہی کی تصدیق ہمارے ہاں بونیر میں اسلامی جمعیت طلبہ کے دور اول کے ایک پر جوش دیرینہ رکن، بعد میں جماعت اسلامی کے بھی رکن… اور نظریاتی ساتھی حاجی لعل داد مرحوم نے بھی کی تھی۔ انہوں نے میرے استفسار پر درجہ بالا حقیقت ہو بہو اسی طرح بیان کی تھی۔
حاجی لعل داد مرحوم کی رائے یہ تھی کہ جائزہ کمیٹی کی طرف سے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کی خبریں چونکہ سید مودودیٰؒ کو ارکان جماعت کی طرف سے خفیہ طور پر پہنچائی گئی تھیں۔ سیدؒ کے لئے ایک طرف یہ بھی ممکن نہ تھا کہ ان ارکان کو بلاکر اور آمنے سامنے بٹھا کر جائزہ کمیٹی کے بزرگ اراکین کے خلاف گواہ کے طور پر پیش کرکے ایک طرف ان بزرگوں کو بے توقیر کر دیں اور دوسری طرف جماعت کے ان ارکان اور جائزہ کمیٹی کے بزرگ قائدین کے درمیان دشمنی کے بیج ڈال دیں۔ اس صورت حال سے دل برداشتہ ہو کر سید مودودیؒ نے پہلے خود استعفیٰ دینے کو ترجیح دی۔ مگر جب استعفیٰ بھی منظور نہ ہو اتو اس کے بعد ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ جائزہ کمیٹی کے خلاف راست اقدام کرتے۔ اگر غور کیا جائے تو سید مودودیؒ کے اس اقدام کے بارے میں ہر صاحب انصاف اور ایک معتدل رائے رکھنے والے کا غصہ کسی حد تک ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ اس گواہی سے… (اگر اسے درست مانا جائے) یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ بدقسمتی سے سید مودودیؒ کے لیے ایک ایسی صورت حال پیدا ہوئی تھی، جس میں ان کی طرف سے ان کے لیے اس مذکورہ ’’غلطی‘‘ کا امکان سو فیصد یقینی تھا۔ انسان عملی زندگی میں بہت سارے موقعوں پر یقیناًً نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی سی کیفیت سے دو چار ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اگر اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ جائزہ کمیٹی کے خلاف اس اقدام میں سیدؒ کے موقف میں جو ’’گیپ‘‘ یا جس ناہمواری کا احساس ہوتا ہے اور جس طرح اصلاحی صاحب نے کئی جگہ پر اپنے خط میں اشارہ کرکے خوب واضح بھی کیا ہے، وہ یہی تو ہے کہ آخر سیدھے اور کھلے طریقے سے جائزہ کمیٹی کی رپورٹ پر شوریٰ میں بحث کے دوران اس کوتاہی کو پورے ثبوتوں کے ساتھ سب کے سامنے کیوں نہیں رکھا گیا، اور اس وقت شوریٰ کے اجلاس میں اس ’’متنازعہ‘‘ رپورٹ ہی کے مندرجات کو مکمل طور پر مسترد کرنے کے بجائے انہی کی بنیاد پر ایک مصالحتی فارمولا بناکر کیوں مان لیا گیا۔ آخر بعد میں وہ کونسی افتاد آن پڑی کہ ارکان شوریٰٰ کے گھروں کو چلے جانے کے بعد ان کا پیچھا الزامات سے بھر پور اس چارج شیٹ کے ذریعے پوری جماعت کو ایک مشکل اور ہنگامی صورت حال سے دوچار کیا گیا۔ درجہ بالا گواہی کسی حد تک ان سوالات کا جواب فراہم کرتی ہے۔ (جاری ہے)