شہر وں میں موجود افغان فوج کو سرحدوں پر جانے کا حکم

امت رپورٹ
افغان طالبان کی جانب سے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت نے تمام شہروں میں موجود فوجی یونٹوں کو سرحدوں اور دو افتادہ قصبوں میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ وزارت داخلہ نے تمام سرکاری ملازمین کے کسی بھی غیر ملکی سفارت خانے، خاص طور پر پاکستانی سفارت خانے میں جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان وزارت داخلہ نے طالبان کی جانب سے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کے بعد شہروں میں کئی برسوں سے تعینات افغان فوج کے اہلکاروں کو فرنٹ لائن پر تعینات کرنے کی منظوری دیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ شہروں سے فوجیوں کو نکال کر دور افتادہ صوبوں اور بارڈر پر تعینات کیا جائے گا اور امریکا کے بجائے دیگر ممالک سے فوجی امداد کی مدد لی جائے گی۔ اس حوالے سے چین سے بھی بات چیت کی جائے گی۔ واضح رہے کہ طالبان نے کہا تھا کہ ان کے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے نائب امیر اور جنوبی افغانستان کیلئے ملٹری چیف مولوی یعقوب کا خط جعلی ہے۔ طالبان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ افغان طالبان کے نائب مولوی محمد یعقوب مجاہد سے منسوب جعلی خط نشر کیا گیا اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ انٹیلی جنس عناصر نے اس سے قبل بھی اس طرح کوششیں کی ہیں۔ اس سے پہلے بھی افغان طالبان کے رہنماؤں کے نام سے جعلی خطوط اور چند خود ساختہ جعلی ویڈیوز مرتب کر کے نشر کی گئیں۔ دوسری جانب سعودی عرب میں کابل انتظامیہ کے ساتھ نشست کی افواہوں سے متعلق طالبان ترجمان نے بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ چند ذرائع ابلاغ میں افواہیں پھیل چکی ہیں کہ سعودی عرب میں افغان طالبان اور کابل انتظامیہ کے نمائندوں کے درمیان ایک نشست منعقد ہوگی، تاہم ان افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کابل انتظامیہ کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے طالبان کے مؤقف میں کو ئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ امریکہ جب طالبان سے گفتگو کے عمل میں شامل ہوا ہے تو اسے بہت سنجیدگی سے آگے بڑھنا چاہیے اور پروپیگنڈے کی کوشش نہیں کی جائے۔ ادھر افغان طالبان کی جانب سے اس انکار کے بعد افغان صدر نے سعودی حکام سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ طالبان کو مجبور کرے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ بات کریں۔ تاہم افغان طالبان نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ان کا موقف واضح ہے۔ سعودی عرب میں وہ مذاکرات کے لئے تیار ہیں، لیکن وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔ وہ جدہ میں امریکی حکام کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ تاہم سعودی عرب اور امارات کی جانب سے طالبان کے امارات اور سعودیہ میں مذاکرات سے مشرق وسطیٰ کے تین اہم ممالک ایران، ترکی اور قطر میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے طالبان نے ایران، ترکی اور قطر سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم ترکی کے حکام نے اس حوالے سے فی الحال کوئی جواب نہیں دیا ہے اور نہ ہی طالبان کے اہلکاروں سے ملاقات کا عندیہ دیا ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ جس انداز سے ان مذاکرات کو بڑھایا جا رہا ہے، اس سے افغانستان میں مزید انتشار پھیلے گا۔ ترکی کی ناراضگی کا اظہار اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ترکی نے چھ جنوری کو تر ک افواج کے سات سو کے قریب اعلیٰ فوجی تربیت کاروں کو بلانے کے بجائے ان کی کابل میں قیام کی مدت میں دو سال کی توسیع کر دی ہے، جبکہ نیٹو کی جانب سے اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ پہلے ترکی نے چھ جنوری 2019ء کو اپنے فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ کیونکہ ترکی میں ناکام بغاوت میں چند فوجی اہلکاروں کا تعلق افغانستان میں تعینات فوجیوں سے بھی رہا، جس پر ترکی نیٹو ممالک سے ناراض تھا۔ لیکن اب ترکی کی جانب سے توسیع پر نیٹو ممالک نہ صرف خوش ہیں، بلکہ ترکی کا کردار بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب ایران اور روس بھی ترکی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس وقت ترک صدر رجب طیب اردگان شام اور افغانستان کے مسئلے پر اپنے منصوبے کے تحت امریکا اور روس کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور انہیں نہ صرف برتری حاصل ہے بلکہ سعودی عرب بھی ترکی کو نارا ض نہیں کرنا چاہتا کہ ایسا نہ ہو کہ خطے کے واحد سنی ملک کی حمایت سے وہ محروم ہو جائے۔ کیونکہ شام سے غیر متوقع امریکی انخلا نے سعودی عرب کو پریشان کر دیا ہے۔

Comments (0)
Add Comment