سدھارتھ شری واستو
جاپانی حکومت نے ایک غیر معمولی اقدام اٹھاتے ہوئے وہیل مچھلیوں کے تحفظ کے عالمی کمیشن سے نکل جانے اور وہیل مچھلیوں کے شکارکو دوبارہ سے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جاپانی حکومت نے 30 برس قبل امریکی اور عالمی دبائو پر جاپان میں انتہائی مقبول ثقافتی شکار پر پابندی عائد کر دی تھی اور یوں سمندروں میں موجود ہزاروں وہیل مچھلیاں محفوظ ہوگئی تھیں۔ لیکن جاپانی حکومت نے تین دہائیوں کے بعد ایک بار پھر وہیل مچھلیوں کے شکار کا اعلان کرکے عالمی دنیا کو حیران و ششدر کر دیا ہے۔ جبکہ عالمی ماحولیاتی تنظیموں نے جاپانی حکومت کے اس فیصلہ پر کڑی تنقید کی ہے، جس کے نتیجے میں انتہائی خوبصورت اور دیو ہیکل سمندری جانور کی معدومی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ ایک نوزائیدہ وہیل کو بالغ وہیل میں تبدیل ہونے میں برسوں لگتے ہیں، لیکن جاپان میں تیار خصوصی جہاز اور ہارپونز ایک لمحہ میں ٹنوں وزنی سمندری جانور کو ہلاک کردیتے ہیں، جنہیں جاپانی ساحلوں پر کھینچ کر لایا جاتا ہے اور خاص قسم کی آریوں سے منٹوں میں کاٹ دیا جاتا ہے اور وہیل کے گوشت، چربی اور بافتوں کو غذائی استعمال اور تجارت کیلئے مارکیٹوں میں بھیجا جاتا ہے۔ برطانوی جریدے ڈیلی میل نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ جاپانی حکومت ’’انٹرنیشنل وہیل کمیشن‘‘ کی رکنیت سے دستبردار ہو چکی ہے اور اس کے پس پردہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جاپان میں وہیل مچھلیوں کا تجارتی پیمانے پر شکار کیا جائے گا۔ اس وقت اگرچہ 30 برس (1986ئ) سے وہیل مچھلیوں کے شکار پر پابندی عائد ہے، لیکن جاپانی حکومت نے شاہی خاندان اور اشرافیہ سمیت متمول افراد کی ’’روایتی اور ثقافتی ضیافت‘‘ کا اہتمام کرنے کی خاطر ہر سال 450 وہیل مچھلیوں کا شکار کرنے کا پہلے ہی اعلان کر دیا تھا، تاکہ وہیل مچھلیوں کے لذیذ گوشت کھانے کی جاپانی ثقافت کو مرنے نہ دیا جائے۔ اس سلسلے میں جاپانی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ 450 وہیل مچھلیوں کے شکار کو تجارتی مقاصد کے بجائے سائنسی مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے لیکن عالمی ماہرین کا اس سلسلہ میں موقف کچھ مختلف ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ اب ’’انٹرنیشنل وہیل کمیشن‘‘ سے جاپان کے اخراج کے بعد ہر سال 10 ہزار وہیل مچھلیوں کا شکار کیا جائے گا، جو بہت حد تک مسائل کا سبب ہے۔ واضح رہے کہ جاپانی حکومت کیخلاف 2010ء میں بھی آسٹریلین حکومت نے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کردیا تھا جس پر جاپان اور آسٹریلیا کے درمیان تنائو بڑھ گیا تھا اور اس وقت بھی آسٹریلیا اور عالمی کمیشن کے درمیان کھنچائو محسوس کیا جارہا ہے، لیکن جاپانی حکومت اس سلسلہ میں اپنے اعلان پر کاربند ہے۔ جاپانی میڈیا نے بتایا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جاپانی حکومتی احکامات کے تحت وہیل مچھلیوں کا شکار کیا جاتا تھا کیونکہ 1945ء میں ایٹم بموں کے استعمال اور عظیم تباہی کے بعد جاپانی معاشرے میں کھانے کی کمی کو دور کرنے کیلئے وہیل مچھلیوں کا بڑے پیمانے پر شکار کیا جاتا تھا اور روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں مچھلیوں کا شکار کرکے لایا جاتا تھا اور ان کا گوشت جنگ زدہ جاپانی عوام کیلئے انتہائی سستے داموں بھیجا اور بیچا جاتا تھا، لیکن 1986ء میں وہیل مچھلیوں کے شکار پر پابندی کے بعد اب ایک بار پھر یہ پابندی ختم ہورہی ہے، جس کے بارے میں عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان کا اقدام اس سمندری نوع کے خاتمہ کی جانب ایک قدم ہے، جو عالمی سطح پر قابل قبول نہیں۔ جاپانی جریدے یوری شمبھون نے وہیل مچھلیوں کے شکار کے حوالے سے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ حکومت پر جاپانی رائے عامہ کی جانب سے بھرپور دبائو تھا کہ وہیل کے شکار پر عائد پابندی ختم کی جائے، کیونکہ جاپانی ثقافت کا حصہ ہے اور صدیوں سے جاپانی سمندروں کا سینہ چیرنے والے جاپانی ماہی گیر اور ملاح وہیل مچھلیو ں کا شکار کرتے آئے ہیں۔ اسی طرح شکار کی جانے والی وہیل مچھلیوں کا گوشت عام طور پر با ذوق افراد کا من بھاتا کھانا قرار دیا جاتا ہے اور اس کے تیل یا چربی چراغوں میں ایندھن کے طور پر ڈالا جاتا ہے اور اس کی بافتوں و دیگر اعضائے رئیسہ سے جاپانی حکیم ادویات اور لیپ وغیرہ تیار کرتے آئے ہیں لیکن دور جدیدکے عالمی اداروں نے جاپانی سمندروں میں وہیل مچھلیوں کے شکار پر یہ کہہ کر پابندی عائد کی گئی تھی کہ جاپانی ثقافت کی آڑ میں وہیل مچھلیوں کا خاتمہ برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلہ میں جاپانی معاشرہ کی قدیم کتب کے تحت بارہویں صدی سے وہیل مچھلیوں کے شکار اور گوشت استعمال کرنے کا ثبوت ملتا ہے، لیکن دوسری جانب جاپانی حکومت کا استدلال ہے کہ جاپان کو انٹرنیشنل وہیل کمیشن کی رکنیت سے دستبرداری کے پس پردہ ناروے اور آئس لینڈ کی چالاکیاں بھی کارگزار ہیں کیونکہ دونوں ممالک نے ایک جانب انٹرنیشنل کمیشن کی رکنیت حاصل کی ہوئی ہے لیکن وہ دونوں ہی وہیل مچھلیوں کا بلا روک ٹوک شکار کررہے ہیں۔ اس لئے جاپانی حکومت نے بھی وہیل مچھلیوں کے شکار کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جاپانی حکام اور ماہری گیری صنعت کے بارے میں مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ سمندروں میں اس وقت بھی وہیل مچھلیوں کی تعداد بہت حد تک اطمینان بخش ہے اور ہزاروں وہیل مچھلیوں کا شکار جاپان کی تجارتی ماہی گیری صنعت کیلئے بڑی نعمت ہوسکتی ہے، جو لاکھوں ٹن مچھلیاں اور مچھلیوں کا گوشت بر آمد کرتا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کا ایک رپورٹ میں کہنا ہے کہ جاپان کی حکومت کی جانب سے وہیل مچھلیوں کے شکار کیلئے جولائی 2019ء کی ڈیٹ لائن مقرر کی گئی ہے، جاپانی معاشرے میں وہیل مچھلیوں کا گوشت کھانا روایت اور ثقافت کا امتزاج ہے۔ جاپانی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سمندری وہیلز کے شکار کیلئے پوری دنیا میں جہاز بھیجے گی، لیکن انٹارکٹیکا اور جنوبی نصف کرہ میں وہیل مچھلیوں کا شکار نہیں کیا جائے گا۔