رشوت وصولی کے انکشاف نے ڈرگ ڈپارٹمنٹ متنازع بنا دیا

عمران خان
کرپشن کے الزامات نے محکمہ صحت کی کارروائیوں کو متنازع بنا دیا۔ چیف ڈرگ انسپکٹر کراچی عدنان رضوی بدعنوانی کے سنگین الزامات کی زد میں آگئے۔ صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے انسپکٹر کی جانب سے صوبائی وزیر صحت اور ایڈیشنل سیکرٹری ہیلتھ کو لکھے گئے لیٹر میں عدنان رضوی کو ادویات ساز کمپنیوں، ڈسٹری بیوٹرز اور میڈیکل اسٹوروں سے بھاری بھتہ وصولی میں ملوث قرار دیا گیا۔ چیف ڈرگ انسپکٹر پر الزام عائد کیا گیا کہ ڈرگ لیبارٹری کے انچارج کی حیثیت سے وہ ضبط شدہ نمونوں کی اپنی مرضی سے رپورٹیں جاری کرکے وزیر صحت اور سیکرٹری ہیلتھ کے نام پر رشوت وصول کر رہے ہیں۔ جبکہ چیف ڈرگ انسپکٹر کیخلاف انکوائری کیلئے رپورٹ ارسال کرنے والے انسپکٹر خورشید کو بھی گزشتہ روز بعض کمپنیوں کو غیر ضروری لیٹر ارسال کرکے ہراساں کرنے کے الزام میں معطل کردیا گیا۔ صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ میں تنازعات اور ایک دوسرے پر الزامات کی روایت زور پکڑتی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں اہم محکمہ کی اصل ذمہ داریاں پوری نہیں ہو رہی ہیں اور شہر میں جعلی یا غیر قانونی ادویات تیار کرنے اور فروخت کیلئے سپلائی کرنے والی مافیا نے اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ لئے ہیں، اس تمام تر صورتحال میں صوبائی وزیر صحت اور سیکرٹری صحت کی پر اسرار خاموشی اور بھی معنی خیز ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول دستاویزات میں معلوم ہوا ہے کہ صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ سندھ کے 17 گریڈ کے انسپکٹر خورشید کی جانب سے محکمہ کے اعلیٰ حکام کو ایک تفصیلی خط لکھا گیا ہے جس میں انہوں نے 19 گریڈ کے چیف ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی پر سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ اس لیٹر میں انسپکٹر خورشید نے لکھا ہے کہ چیف ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی وزیر صحت عذرا پیچوہو اور سیکرٹری صحت کے نام پر ادویات ساز کمپنیوں، میڈیکل اسٹوروں اور سپلائرز سے بھاری رشوت وصول کر رہے ہیں اور عدنان رضوی ڈرگ لیبارٹری کے انچارج بھی ہیں اور وہ اپنی من پسند رپورٹیں تیار کرواکر ان کے ذریعے ادویات ساز کمپنیوں اور سپلائرز سے رقم وصول کرنے کیلئے انہیں ہراساں کر رہے ہیں۔ اسی لیٹر میں انہوں نے مزید لکھا ہے کہ عدنان رضوی اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے مافیا کی دست راست ادویہ ساز کمپنیوں اور ڈسٹری بیوٹرز کو کنسلٹنٹ کی حیثیت سے معاونت فراہم کر رہے ہیں، جن کیخلاف انکوائریوں میں کارروائی کیلئے انہیں متعلقہ انسپکٹر کی جانب سے لیٹرز ارسال کئے گئے ہیں۔ چیف ڈرگ انسپکٹر ان کمپنیوں کو مشورے دیتے ہیں کہ وہ لیٹر ارسال کرنے والے انسپکٹر کیخلاف اعلیٰ حکام کو لکھیں کہ مذکورہ انسپکٹر انہیں غیر ضروری طور پر ہراساں کر رہے ہیں۔ اسی لیٹر میں مزید الزامات عائد کئے گئے ہیں کہ عدنان رضوی عارضی طور پر قائم مقام چیف ڈرگ انسپکٹر کے عہدے پر تعینات کئے گئے تھے۔ تاہم اس وقت انہیں ڈائریکٹو ریٹ آف ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کا بھی انچارج بنایا گیا ہے، جو کہ ڈرگ ایکٹ 1976 کی واضح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ عدنان رضوی جعلی میڈیسن مافیا کیخلاف کی جانے والی کارروائیوں کی حساس معلومات لیک کر رہے ہیں جس سے آپریشن متاثر ہو رہے ہیں۔ یوں چیف ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی جعلی ادویات مافیا کے سرپرست بن رہے ہیں۔ ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے ذرائع کے مطابق یہ لیٹر ارسال کرنے کے کچھ ہی روز بعد گزشتہ دنوں ڈرگ انسپکٹر خورشید کو معطل کردیا گیا جس کیلئے جاری ہونے والے لیٹر میں ڈرگ ڈپارٹمنٹ حکام کی جانب سے ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ کمپنیوں کو غیر ضروری طور پر لیٹر لکھ کر ہراساں کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں جب چیف ڈرگ انسپکٹر پر الزامات عائد کرنے والے انسپکٹر خورشید سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے موبائل فون اٹینڈ نہیں کیا۔ تاہم جب اس حوالے سے چیف ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ الزامات درست نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انسپکٹر خورشید خود بھتہ وصولی میں ملوث ہیں اور کئی جگہوں سے ان کے حوالے سے انہیں رپورٹس موصول ہوئی ہیں، جس میں انہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کمپنیوں سے بھاری مالیت کی رشوت کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک کمپلین جب ان کے پاس آئی تو انہوں نے وہ کمپلین سیکرٹری صحت کو ارسال کردی جس پر انسپکٹر خورشید کو معطل کردیا گیا۔
چیف ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی نے مزید بتایا کہ انسپکٹر خورشید سمیت ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے اور بھی ایسے انسپکٹرز ہیں جوکہ ان کے خلاف ہیں کیونکہ انہوں نے گزشتہ دنوں ایسے تمام ماتحت افسران کے خلاف اعلیٰ حکام کو خط لکھا تھا۔ لیٹر میں انہوں نے اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا تھا کہ ماتحت افسران اپنی ترقیوں کیلئے جمع کروائی جانے والی سالانہ کارکردگی رپورٹ کو چیف ڈرگ انسپکٹر کے علم میں لائے بغیر غیر متعلقہ افسران سے دستخط کرواکر جمع کروارہے ہیں، جو غیر قانونی ہے کیونکہ یہ افسران چیف ڈرگ انسپکٹر کے ماتحت کام کر رہے ہیں اور قانونی طور پر ان کی کارکردگی کے معیار کے حوالے سے کمنٹس متعلقہ افسر ہی دے سکتا ہے۔ اگر کسی کی کارکردگی درست نہیں رہی تو اس پر غیر تسلی بخش لکھا جائے گا اور جس کی کارکردگی بہتر ہوگی اس کی اے سی آر رپورٹ اچھی بنائی جائے گی۔ تاہم اسی وجہ سے ماتحت افسران انہیں بائی پاس کرکے غیر متعلقہ افسران سے رپورٹیں منظور کرواکر جمع کروا رہے تھے۔ یہ لیٹر لکھنے کے بعد یہ افسران اس کیخلاف ہوگئے۔
اس پورے معاملے میں ’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات میں شامل ایک لیٹر اسپیشل سیکریٹری ہیلتھ ڈاکٹر نسیم الغنی بھٹو کے دستخط سے جاری ہوا، جس میں ڈرگ انسپکٹر کو رشید کو اہل اور مستند قرار دے کر انہیں کراچی میں تعیناتی دینے کے احکامات جاری کئے گئے۔ تاہم اس لیٹر کو بھی چیف ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی نے جعلی قرار دیتے ہوئے بتایا کہ یہ کلرک مافیا کی کارستانی ہے اور اس وقت محکمہ سندھ کے ڈرگ ڈپارٹمنٹ میں کلرک مافیا بااثر بنی ہوئی ہے، جو متعلقہ افسران کی منظوری کے بغیر ایسے جعلی لیٹر جاری کردیتی ہے۔
اس ضمن میں صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ڈرگ ڈپارٹمنٹ اور صوبائی کوالٹی کنٹرول بورڈ اپنی اصل ذمے داریوں کے بجائے آپس کے تنازعات اور جھگڑوں میں الجھا ہوا ہے جس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر وقت اور توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں تاہم اس لڑائی جھگڑے میں ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے اندر موجود بدترین کرپشن کے حقائق نکل کر سامنے آرہے ہیں اور افسران ایک دوسرے پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کر رہے ہیں ان کی کسی بھی تحقیقاتی ادارے بشمول نیب اور اینٹی کرپشن سے مکمل تحقیقات ہونی چاہئے تاکہ اس اہم ڈپارٹمنٹ کو تباہی کے دہانے پر پہنچنے سے بچایا جاسکے جس کے نتیجے میں پورے شہر سمیت سندھ بھر میں جعلی ادویات مافیا کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں اور شہریوں کی زندگیوں کو دائو پر لگانے والی مافیا اربوں روپے کما رہی ہے جبکہ ڈپارٹمنٹ کی نمائشی کارروائیاں اس مافیا کو لگا ڈالنے کے لئے بالکل ناکافی ہیں ۔

Comments (0)
Add Comment