مقتولہ زینب کے گھروالوں کو بلیک میل کیا جانے لگا

نمائندہ امت
قصور کی سات سالہ زینب اور دیگر کئی بچیوں سے زیادتی و قتل کے جرم میں پھانسی چڑھنے والے مجرم عمران کے اہل خانہ نے زینب کے خاندان اور دیگر اہل محلہ کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا ہے۔ قاتل عمران کی فیملی نے الزام لگایا ہے کہ مقتول بچی کے اہل خانہ کی شہ پر پولیس نے ان کے گھر پر قبضہ کرلیا ہے۔ جبکہ مقامی ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ مجرم عمران کے اہل خانہ کو تحفظ دینے کی خاطر دوسری جگہ منتقل کیا تھا، اور یہ کہ ان کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔
پولیس اور دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ قاتل عمران نے پولیس اور قصور کی ضلعی انتظامیہ کو خود یہ تحریر دی تھی کہ اس کے اہلخانہ آئندہ اس گھر میں (جو مقتولہ زینب کے گھر کے بالکل سامنے ہے) نہیں رہیں گے اور نہ اس محلے میں آنا جانا رکھیں گے، بس شرط یہ ہے کہ پولیس انہیں مشتعل عوام سے تحفظ فراہم کرے اور ان کے گھر میں جو سامان رکھا ہے، اس کو حفاظت سے نکالنے میں مدد کرے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت تھانہ اے ڈویژن کے ایس ایچ او حاجی محمد اشرف تھے اور انہوں نے بطور ایس ایچ او اپنی ذمہ داری پوری کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دنوں پورے قصور میں ہنگامے ہو رہے تھے اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے قاتل عمران کے چچا افضل نے اعتراف کرلیا تھا کہ انہیں عمران کے اس قتل کیس میں ملوث ہونے کا علم تھا۔ ان ذرائع کے مطابق اسی لئے قصور کے عوام اور مقتول بچیوں کے ورثا یہ سمجھتے ہیں کہ پھانسی پانے والے عمران کے خاندان کے افراد بھی شریک مجرم ہیں اور وہ انہیں علاقے میں دیکھنا برداشت نہیں کر سکتے۔ پولیس ذرائع کے بقول قاتل عمران کے خاندان اس کی اپنی رضامندی کے بعد منتقل کیا گیا۔
قصور کے مقامی ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ دنوں عمران کے دادا محمد رمضان کا انتقال ہو گیا تھا۔ یہ خاندان قصور سے 30 کلو میٹر دور ایک گاؤں میں رہتا ہے، جہاں انہوں نے عمران کی تدفین بھی کی تھی۔ محمد رمضان کے انتقال کے موقع کو اس خاندان نے قصور میں اپنے گھر واپسی کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں مجرم عمران کے چچا افضل نے مقتولہ زینب کے خاندان کے ایک بزرگ حاجی صدیق انصاری کو موبائل فون پر اطلاع دی کہ ہمارے چچا رمضان کا انتقال ہوگیا ہے، جس کے کچھ دیر بعد یہ لوگ مرحوم محمد رمضان کی میت لے کر اپنے گھر آ گئے۔ اس گھر کو پولیس نے عمران کی گرفتاری کے بعد سے تالے لگا رکھے ہیں اور ان تالوں کی چابیاں ڈی پی او قصور کے دفتر میں جمع ہیں۔ اس خاندان کی اچانک آمد پر محلہ داروں اور پورے علاقے میں اشتعال پھیل گیا۔ اس دوران مقتولہ زینب کے ماموں حافظ عمران نے پولیس کو اطلاع دی کہ محلے میں اس خاندان کی آمد کے بعد صورت حال کشیدہ ہورہی ہے۔ پولیس کو گزشتہ واقعات کی وجہ سے صورت حال کی نزاکت کا اندازہ تھا، لہٰذا ایس ایچ او تھانہ اے ڈویژن وحید عارف خان اپنی نفری کے ہمراہ فوراً موقع پر پہنچے اور وہاں موجود عمران کے چچا افضل وغیرہ پر غصے کا اظہار کیا کہ پولیس کے لگائے گئے تالے توڑ کر انہوں نے جرم کیا اور اب وہ اچانک خاندان سمیت یہاں آکر امن عامہ کی صورت حال خراب کر رہے ہیں۔ اس لئے وہ لوگ یہاں سے چلے جائیں، ورنہ حالات کشیدہ ہونے کی ذمہ داری ان پر ہوگی۔ مقامی ذرائع کے مطابق بڑی تعداد میں لوگ اس گلی اور دیگر گلیوں میں اکٹھے ہوکر اس خاندان کو زبردستی وہاں سے نکالنے اور ان کے گھر کو آگ لگانے کی باتیں کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں انسپکٹر وحید عارف خان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ… ’’پولیس نے قاتل عمران کا گھر اپنی نگرانی میں لے کر تالے لگائے تھے اور اس کے اہل خانہ کو تحفظ کیلئے یہاں سے شفٹ کیا تھا۔ مجھ پر اپنے گھر پر قبضے کا الزام ان لوگوں کی سازش ہے‘‘۔
واضح رہے کہ مجرم عمران کے اہلخانہ نے ایک جانب عدالت میں ایس ایچ او وحید عارف خان پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے ان کے مکان پر قبضہ کرلیا ہے، تو دوسری جانب قصور اور لاہور کے چند علاقوں میں پوسٹرز بھی چسپاں کئے ہیں، جن میں خود کو مظلوم اور مقتولہ زینب کے والد حاجی امین انصاری کو ظالم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے اشتعال دلانے پر لوگ اکٹھے ہوئے اور پولیس نے جنازہ واپس لے جانے کا حکم دے کر میت کی تذلیل کی۔ جبکہ انسپکٹر وحید عارف کے مطابق جس دن یہ واقعہ ہوا، اس دن حاجی امین انصاری اپنے گھر پر ہی نہیں تھے۔
اس سلسلے میں ’’امت‘‘ نے جب مقتولہ زینب کے ماموں حافظ محمد عمران سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ… ’’عمران کے خاندان نے پولیس کو حلف نامہ دیا تھا کہ وہ آئندہ اس گھر میں نہیں رہیں گے۔ اب اپنے ایک بزرگ کی میت کا سہارا لے کر اچانک آگئے اور سرکاری تالے توڑ کر گھر میں گھس گئے تو لوگوں میں اشتعال پھیلا۔ لیکن پولیس نے کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کیلئے مناسب اقدام کیا۔ یہ لوگ اب ہمارے خاندان پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ جبکہ ہم نے بہت پہلے ہی پولیس کو تحریری درخواست کی تھی کہ ان لوگوں کو تحفظ فراہم کریں۔ اگر خدانخواستہ ان کو کوئی نقصان پہنچا تو الزام ہم پر آئے گا‘‘۔

Comments (0)
Add Comment