امت رپورٹ
سندھ میں حکومت تبدیل کرانے کے لئے پس پردہ سرگرمیوں میں تیزی آ چکی ہے۔ تاہم اس قدر کھچڑی پکی ہوئی ہے کہ حتمی طور پر کوئی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ مستقبل قریب میں صوبے کی سیاست کس کروٹ بیٹھنے جا رہی ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے متعلق کوششوں سے آگاہ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں تازہ ڈیویلپمنٹ یہ ہوئی ہے کہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس نے پی ٹی آئی سے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اگر ووٹ آف نو کانفیڈنس کے ذریعے اپوزیشن پارٹیاں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت گرانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو سندھ کا نیا وزیر اعلیٰ علی گوہر خان مہر کو بنایا جائے۔ سندھ کی بااثر سیاسی فیملی کے رکن علی گوہر مہر اس وقت گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کا حصہ ہیں، اور 25 جولائی 2018ء کے جنرل الیکشن میں گھوٹکی سے جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے ہی رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ عام انتخابات سے پہلے فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا کی قیادت میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس سندھ میں پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر کائونٹر کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ تاہم بوجوہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا۔
مہر فیملی کے پیپلز پارٹی سے قریباً دس سالہ رفاقت رہی ہے۔ تاہم 25 جولائی کے الیکشن میں علی گوہر مہر پی پی مخالف جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر ایم پی اے بنے تو وہیں، فیملی کے ایک اور اہم رکن علی محمد مہر نے گھوٹکی سے ہی آزاد امیدوار کے طور پر قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا تھا اور کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے حکمراں پارٹی تحریک انصاف کو جوائن کر لیا۔ وہ اس وقت وفاقی وزیر ہیں۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ علی گوہر اور علی محمد مہر کے تیسرے بھائی علی نواز خان مہر نے پیپلز پارٹی سے وابستگی قائم رکھی اور 25 جولائی کا صوبائی الیکشن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لڑ کر کامیابی حاصل کی۔ سندھ میں ان ہائوس تبدیلی کے لئے اس وقت جی ڈی اے اور بالخصوص اس میں شامل مہر فیملی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مہر فیملی کو ان کوششوں سے روکنے کے لئے پیپلز پارٹی کی قیادت علی نواز مہر سے دیرینہ تعلقات کو استعمال کرنے میں کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں جہاں ایک طرف علی گوہر مہر نے گورنر سندھ عمران اسماعیل اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، تو دوسری جانب آصف زرداری نے بھی علی نواز مہر سے خصوصی میٹنگ کی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ سندھ کی وزارت اعلیٰ کے حصول کے خواہش مند جی ڈی اے کا موقف ہے کہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی نشستیں اگرچہ سندھ اسمبلی میں ان سے زیادہ ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کے بیشتر ارکان نوزائیدہ ہیں اور اسی طرح ایم کیو ایم بھی کبھی برسر اقتدار نہیں رہی۔ لہٰذا ان دونوں کے مقابلے میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس میں شامل پارٹیاں سندھ کے معاملات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتی ہیں۔ اور یوں انہیں امور حکومت چلانے میں دشواری نہیں ہوگی۔ چنانچہ سندھ اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں وزارت اعلیٰ کا قلمدان علی گوہر خان مہر کو ملنا چاہئے، جن کے ایک بھائی علی محمد مہر پہلے بھی وزیر اعلیٰ سندھ رہ چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق تاہم تحریک انصاف، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کی یہ خواہش پوری کرنے کے حق میں نہیں اور اس کا موقف ہے کہ اتنی جدوجہد کے بعد بھی اگر حکومت اس کی نہیں بنتی تو پھر ساری مشق کا کیا فائدہ ہوگا؟ ذرائع کے بقول اس ایشو پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے، اور اگر دونوں پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا تو پھر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کرنے کے لئے آخری آپشن یعنی گورنر راج کو پہلے آپشن کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ تحریک انصاف صوبے کو ہر صورت اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کی راہ میں صرف جی ڈی اے کی خواہش ہی حائل ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ بلکہ ایم کیو ایم پاکستان بھی اپنی بلیک میلنگ کے پرانے ٹول کو استعمال کرنے کے لئے پر تولے بیٹھی ہے، اور اس نے موقع سے فائدہ اٹھانے کی تیاری کرلی ہے۔ پی ٹی آئی نے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں مدد کے لئے ایم کیو ایم پاکستان سے رابطہ کیا ہے۔ جس پر کنور نوید جمیل نے رابطہ کمیٹی سے مشاورت کے بعد جواب دینے کا کہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے ذہن بنا لیا ہے کہ پی ٹی آئی کا ساتھ اس وقت ہی دیا جائے گا، جب اس کے مطالبات کو تسلیم کیا جائے گا۔ ذرائع کے بقول فی الحال ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی کے سامنے اپنے مطالبات نہیں رکھے ہیں۔ تاہم پارٹی کے حلقوں میں جو بات چیت چل رہی ہے اس کے مطابق ایم کیو ایم وفاق میں مزید ایک یا دو وزارتیں چاہتی ہے۔ اور اس وقت اس کے پاس جو وفاقی وزارتیں ہیں، ان وزارتوں کا قلمدان بھی تبدیل کرانے کی خواہش مند ہے۔ اسی طرح سندھ میں حکومت بننے کی صورت میں صوبائی وزارت داخلہ کا حصول بھی ایم کیو ایم کا ہدف ہوگا۔
ذرائع کے بقول ان تمام عوامل کے پیش نظر وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا اتنا آسان کام دکھائی نہیں دے رہا۔ واضح رہے کہ اس عمل کو کامیاب بنانے کے لئے پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم کی مدد بھی لازمی درکار ہے۔ جس کے ارکان کی تعداد صوبائی اسمبلی میں 20 ہے۔ کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی سے رابطے کرنے والے پی پی ارکان 20 سے 22 ہیں اور فی الحال یہ ممکن دکھائی نہیں رہا کہ تحریک انصاف، پی پی کے 40 سے 42 ارکان کا فارورڈ بلاک بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ یوں اسے ایم کیو ایم کی ضرورت نہ رہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ تحریک عدم اعتماد سے قبل پی ٹی آئی موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ کو مستعفی کرانا چاہتی ہے۔ تاکہ اس کے نتیجے میں مراد علی شاہ اور ان کے حامی بھی پارٹی سے بد ظن ہو جائیں اور یوں پی پی کے مزید ارکان توڑنے کا امکان پیدا کیا جا سکے۔ لیکن فی الحال پی پی قیادت اپنے وزیر اعلیٰ کو مستعفی کرانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ہونے والی تازہ ملاقات کے بعد پی ٹی آئی کو یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کو آخری حد تک نہیں ہٹایا جائے گا۔
ادھر پیپلز پارٹی کے حلقوں میں اب اس بات پر پچھتاوے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت ختم کرنے کے عمل میں پارٹی قیادت نے کیوں حصہ لیا۔ ایک پی پی رہنما کے بقول چونکہ یہ فیصلہ پارٹی کی اعلیٰ سطح پر کیا گیا تھا۔ لہٰذا کوئی اس سے اختلاف کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ حالانکہ پارٹی میں کچھ دبی دبی آوازیں ضرور اٹھی تھیں کہ اس غیر جمہوری عمل کا ساتھ دینا پی پی کی روایات نہیں۔ رہنما کے مطابق اب اسی صورت حال کا سامنا پیپلز پارٹی کو سندھ میں ہے۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ اگرچہ خود اس وقت عتاب میں ہے۔ ویسے بھی وہ اس معاملے میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ تاہم اس عمل کے خلاف آواز احتجاج بلند کر کے پارٹی کی اخلاقی مدد ضرور کر سکتی تھی۔ لیکن ماضی کی تلخیوں کے سبب نون لیگ اس سارے ایشو سے لا تعلق بیٹھی ہے۔ جبکہ پی پی اس رویے پر شکوے کا اخلاقی جواز کھو چکی ہے۔