نیشنل اسٹیڈیم انکلوژرز کی چھتیں تیار کرنے کا مرحلہ شروع

ندیم بلوچ
نیشنل اسٹیڈیم انکلوژرز کی چھتیں تیار کرنے کا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔ تین لاکھ اسکوائر فٹ ٹیفلون فیبرک کراچی پہنچ گیا ہے۔ اسٹالیشن کے بعد اسٹیڈیم جدید طرز کا لگے گا۔ تنصب کیلئے ملائیشین اور چینی انجینئرز آئندہ ہفتے کراچی پہنچیں گے۔ مٹیریل کی خریداری پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے 30 کروڑ سے زائد روپے خرچ کئے ہیں۔ بورڈ حکام پُر اعتماد ہیں کہ جنوری کے آخر تک اسٹیڈیم پی ایس ایل فور کیلئے تیار ہوجائے گا۔
دسیتاب اطلاعات کے مطابق 2019ء کے شروع ہوتے ہی پی ایس ایل فور کی تیاریاں تیز ہوگئی ہیں۔ لاہور اس بار ایونٹ کے تین میچز کی میزبانی کر رہا ہے۔ جبکہ کراچی کو اس بار پانچ میچوں کی میزبانی کا موقع میسر ہے۔ اس بڑے فیصلے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے نیشنل اسٹیڈیم کو جدید طرز کا بنانے کی ٹھان لی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اچھی اور محفوظ لوکیشن کے باعث آئندہ بھی انٹرنیشنل کرکٹ ایونٹس کے میچز کراچی میں ہی کرانے کو ترجیح دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق نجم سیٹھی کے دور میں ہی کراچی اسٹیڈیم کو پاکستان کا سب سے مہنگا اور خوبصورت وینیو بنانے کیلئے ڈیڑھ ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا۔ اس لاگت کا سب سے بڑا حصہ میگا پروجیکٹ ٹیفلون فبیرک کی اسٹالیشن پر لگا جا رہا ہے۔ اسٹیڈیم کی چھتوں کیلئے خاص قسم کی فیبرک جرمنی میں تیار ہوتی ہے۔ ٹیفلون نامی فیبرک کی سلائی وغیرہ ملائیشیا میں کرائی گئی تھی۔ نیشنل اسٹیڈیم انکلوژرز کی چھتوں کا ٹیفلون فبیرک ملائیشیا سے کراچی پہنچ گیا ہے۔ جبکہ سپر لیگ فور کی تیاریوں کے حوالے سے نینشل اسٹیڈیم کے فیز ٹو کا کام تیز کر دیا گیا ہے۔ کرین کے ذریعے چھتوں کی پائپنگ سمیت انسٹالیشن کی جارہی ہے۔ بعد ازاں ٹیفلون مٹیریل سے چھتیں ڈھانپنے کا سلسلہ عالمی ماہرین کی ٹیم پہنچنے کے بعد شروع کیا جائے گا۔ جس کیلئے ملائیشین اور چینی انجینئرز پر مشتمل تکنیکی مشاورتی ٹیم اگلے ہفتے کراچی پہنچ جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق تین لاکھ اسکوائر فٹ ٹیفلون کپڑا انکلوژرز کی چھتوں پر انسٹال کیا جائے گا۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باعث کام کی لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ صرف اس میگا پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے پاکستان کرکٹ بورڈ کو 30 کروڑ روپے سے زائد روپے کے اخراجات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹیفلون کپڑا مٹیریل سب سے زیادہ یورپی فٹبال اسٹیڈیمز میں استعمال کیا جارہا ہے۔ جبکہ فیفا ورلڈ کپ کے وینیوز میں بھی اسی کا استعمال کیا گیا تھا۔ جو پھٹنے کے ساتھ آگ لگنے سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ دوسری جانب گزشتہ برس نیشنل اسٹیڈیم کا تعمیراتی کام سست ہونے کے سبب پاکستان کرکٹ بورڈ کو کئی بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ انٹرنیشنل ایونٹ ایمرجنگ کپ کے چند میچز کی میزبانی کراچی اسٹیڈیم نے کی۔ لیکن تعمیراتی کام کے باعث بورڈ نے ایونٹ کے ٹکٹ تک جاری نہیں کئے۔ اسٹیڈیم میں جاری کام کی وجہ سے گزشتہ سیزن میں قائد اعظم ٹرافی کے میچز منتقل کرنا پڑ گئے تھے۔ قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کی میزبانی بھی ملتان کو دے دی گئی۔ دوسری جانب اسٹیڈیم کے چیئرمین اور میڈیا باکسز مکمل طور پر توڑ دیئے گئے ہیں۔ کئی انکلوژر میں کرسیوں کی تنصیب بھی ابھی باقی ہے۔ جبکہ ڈریسنگ روم کی تزئین و آرائش تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ دوسری طرف میدان کی حالت خاصی بہتر ہو گئی ہے اور ہریالی نظر آ رہی ہے۔ اسٹیڈیم کے ریذیڈنٹ انجینئر کے بقول ڈریسنگ روم میں صرف تزئین و آرائش کو حتمی شکل دینا باقی ہے، جو چند دنوں میں مکمل ہو جائے گی۔ راستوں سمیت بیشتر جگہوں پر ٹائلز کی تنصیب بھی کی جا چکی ہے۔ جاوید میانداد اور حنیف محمد انکلوژرز میں تعمیراتی کام مکمل ہوچکا ہے۔ واضح رہے کہ نیشنل اسٹیڈیم میں پہلا انٹرنیشنل ٹیسٹ میچ 1955ء میں کھیلا گیا تھا۔ اس اسٹیڈیم میں تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش 40,000 ہے۔ پاکستانی ٹیم نے پاکستان میں اپنے نصف سے زائد ٹیسٹ میچ اِسی میدان پر کھیلے ہیں۔ اِن کھیلے گئے ٹیسٹ میچوں میں سے قومی ٹیم کو صرف دو میں ناکامی ہوئی۔ کسی دور میں نیشنل اسٹیڈیم ’پاکستان کرکٹ کا قلعہ‘ کے طور پر شہرت رکھتا تھا۔ جبکہ یہ اسٹیڈیم سب سے زیادہ ہنگامہ آرائیوں کا سامنا کرنے کی تاریخ بھی رکھتا ہے۔ 1968ء میں انگلینڈ کے خلاف اور 1969ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز ہنگامہ آرائی کی وجہ سے بُری طرح متاثر ہوئی۔ 1981ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میچ اور 1983ء میں آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ میچ کے دوران بھی ہنگامہ برپا ہوا، جس کے سبب میچ درمیان میں ہی روکنا پڑا تھا۔ 1980ء کی دہائی کے اواخر سے حالات بہتر ہونا شروع ہوئے۔ اسٹیڈیم کو 1987ء میں کرکٹ ورلڈ کپ کیلئے وسیع کیا گیا۔ ورلڈ کپ کے دوران 3 میچز اِسی میدان پر کھیلے گئے تھے۔ ورلڈ کپ 1996 کے لیے اِس اسٹیڈیم میں مزید بہتری لائی گئی۔ 1996ء ورلڈ کپ کے دوران 3 میچز اِسی میدان پر کھیلے گئے۔ یاد رہے کہ 1950ء کی دہائی کے اواخر تک نیشنل اسٹیڈیم میں پچ کی تیاری میں میٹنگ پچ (پٹ سن) استعمال ہوتا تھا، جو سیم بالنگ کیلئے کافی سازگار ثابت ہوتا تھا۔ میٹنگ کا استعمال ختم کر دینے کے بعد پچز ہموار اور بیٹنگ کے لیے سازگار ہوگئی۔ یہ سلسلہ 1970ء کی دہائی کے وسط تک جاری رہا۔ بعد ازاں میدان کے عملے نے اسکوائر ٹرنرز تیار کرنا شروع کر دیا۔ یہاں آخری بین الاقوامی میچ 2009ء میں کھیلا گیا تھا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment