رسول اکرمؐ کے چچا زاد بھائی سیدنا ابن عباسؓ آپؐ کی وفات کے وقت 10 سال کے تھے۔ ایک دن اپنی عمر کے ایک انصاری صحابیؓ سے کہنے لگے: اس وقت مدینہ طیبہ میں رسول اقدسؐ کے بہت سے صحابہ کرامؓ موجود ہیں، جنہوں نے آپؐ کے ساتھ غزوات میں حصہ لیا اور اکٹھے سفر کیے۔ آپؐ کی صحبت میں وقت گزارا۔ ان کے سینوں میں کتنے ہی اہم واقعات محفوظ ہیں۔ چلو ان کے پاس چلتے ہیں۔ ان سے وہ واقعات و تجربات سنتے ہیں، ان سے علم حاصل کرتے اور مستفید ہوتے ہیں۔
وہ انصاری کہنے لگے: کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اتنے جلیل القدر صحابہ کے موجود ہوتے ہوئے لوگ تمہارے پاس علم سیکھنے کیلئے آئیں گے؟!
اس انصاری نوجوان کی سوچ اور فکر یہ تھی کہ اگر کسی نے کوئی مسئلہ پوچھنا ہے تو وہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا عمر فاروقؓ، سیدنا علیؓ، سیدنا زید بن ثابتؓ، سیدنا ابی بن کعبؓ اور سیدنا معاذ بن جبلؓ جیسے علماء صحابہ سے رجوع کریں گے۔
سیدنا ابن عباسؓ نے اس نوجوان کو چھوڑا اور تنہا ہی علم حاصل کرنا شروع کر دیا۔ مسجد نبویؐ میں اصحاب صفہ کا چبوترہ ایک بڑی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا۔ ابن عباسؓ 5 وقت کی نمازوں کی ادائیگی کے لئے مسجد نبویؐ میں آتے تو بہت سارے صحابہ کرامؓ سے ملاقات ہو جاتی۔ سیدنا ابن عباسؓ میں دیگر خوبیوں کے علاوہ اچھا اور عمدہ سوال کرنے کی خوبی بہت نمایاں تھی۔
سیدنا عمر فاروقؓ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ ہے تو نوجوان، مگر اس کی عقل بڑی عمر کے لوگوں جیسی ہے۔ اس کے پاس علم کے لئے کثرت سے سوال کرنے والی زبان اور سمجھ دار دل ہے۔
اچھا سوال کرنا بھی ایک فن ہے۔ اگر شاگرد ذہین ہو تو استاذ کو پڑھانے میں مزا آتا ہے۔ ایک اور واقعہ بیان کرنے کے بعد سیدنا ابن عباسؓ کا واقعہ مکمل کرتے ہیں۔
امام ابو حنیفہؒ کی مجلس، ان کے علمی حلقے میں بہت سارے لوگ شرکت کرتے تھے۔ ان سے سوالات کیے جاتے، انہیں جوابات ملتے۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھا گیا کہ وہ کثرت سے ان کی مجلس میں بیٹھتا ہے، مگر وہ خاموش بیٹھا رہتا ہے، کوئی سوال نہیں کرتا۔ اس کے لباس، پگڑی وغیرہ سے ایسا لگتا تھا کہ وہ خاصا پڑھا لکھا معقول آدمی ہے۔ ایک دن امام صاحبؒ نے اس سے کہا: بھئی! دوسرے لوگ سوالات کرتے ہیں، مگر تم خاموش بیٹھے رہتے ہو، تم بھی کوئی سوال کیا کرو۔
اس نے کہا: جی امام صاحب! ٹھیک ہے، میں بھی سوال کروں گا۔ اگلے روز اس نے کہا: ذرا یہ تو بتائیے کہ روزہ دار کو روزہ کب افطار کرنا چاہیے؟ امام صاحبؒ نے جواب دیا کہ جب سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ اس نے اگلا سوال داغ دیا: اچھا تو امام صاحب! یہ بتائیں کہ اگر آدھی رات تک سورج غروب ہی نہ ہو تو پھر روزہ دار کیا کرے؟ امام صاحبؒ نے فرمایا: تمہاراخاموش رہنا ہی بہتر تھا، تم سوال نہ کرتے تو اچھا تھا۔
سیدنا ابن عباسؓ بہت بڑے گھرانے کے فرد ہونے کے باوجود بڑے مؤدب تھے۔ انہوں نے خود صحابہ کرامؓ کے گھر جانا شروع کر دیا۔ وہ ان سے خوب سوالات کرتے، احادیث سنتے اور انہیں اپنے دل و دماغ میں جگہ دیتے۔ رسول اکرمؐ نے بھی ان کے لئے متعدد دعائیں کی تھیں۔ ایک مرتبہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: الٰہی! اس کو دین کی سمجھ عطا فرما۔
دوسری روایت کے مطابق آپؐ نے یہ بھی دعا فرمائی تھی: خدایا! اسے قرآن کریم کی تفسیر کا علم عطا فرما۔
سیدنا ابن عباسؓ وہ خوش قسمت شخصیت ہیں کہ جب پیدا ہوئے تو ان کے والد انہیں اٹھا کر رسول اقدسؐکی خدمت میں لے آئے۔ آپؐنے اپنے لعاب دہن سے انہیں گھٹی دی۔ اس طرح سب سے پہلی خوراک جو ان کو ملی، وہ رسول اقدسؐ کا مبارک لعاب دہن تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭