معارف و مسائل
(آیت) ’’کیا اب بھی وقت نہیں آیا ایمان والوں کے لئے کہ ان کے قلوب خدا کے ذکر کے لئے جھک جائیں اور نرم ہو جائیں اور اس قرآن کے لئے جو ان پر نازل کیا گیا۔‘‘
خشوع قلب سے مراد دل کا نرم ہونا اور وعظ و نصیحت کو قبول کرنا اور اس کی اطاعت کرنا ہے (ابن کثیر) قرآن کے لئے خشوع یہ ہے کہ اس کے احکام اور اوامر و نواہی کی مکمل اطاعت کے لئے تیار ہو جائے اور اس پر عمل کرنے میں کسی سستی اور کمزوری کو راہ نہ دے۔ (روح المعانی)
یہ عتاب و تنبیہ مومنین کو ہے، حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حق تعالیٰ نے بعض مومنین کے قلوب میں عمل کے اعتبار سے کچھ سستی معلوم کی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر)
امام اعمشؒ نے فرمایا کہ مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد صحابہ کرامؓ کو کچھ معاشی سہولتیں اور آرام ملا تو بعض حضرات میں عمل کی جدوجہد جو ان کی عادت تھی، اس میں کچھ کمی اور سستی پائی گئی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (روح المعانی)
حضرت ابن عباسؓ کی مذکورہ روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ آیت عتاب نزول قرآن سے تیرہ سال بعد نازل ہوئی (رواہ عنہ ابن ابی حاتم) اور صحیح مسلم میں حضرت ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ہمارے اسلام لانے کے چار سال بعد اس آیت کے ذریعے ہم پر عتاب و تنبیہ نازل کی گئی۔
بہرحال حاصل اس عتاب و تنبیہ کا مومنین کو مکمل خشوع اور عمل صالح کے لئے مستعد رہنے کی تعلیم ہے اور خشوع قلب ہی پر تمام اعمال کا مدار ہے۔
حضرت شداد بن اوسؓ کی روایت ہے کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو چیز لوگوں سے اٹھا لی جائے گی، وہ خشوع ہے۔ (ابن کثیر) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭