یہ دوسری صدی ہجری کازمانہ ہے۔ مملکت اسلامیہ کی باگ ڈور خلیفہ ہارون رشید کے ہاتھ میں ہے، دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمان کعبہ شریف کا حج ادا کرنے کیلئے آرہے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں پانی ناپید ہے۔ حجاج کرام اور اہل مکہ بڑی مشکل سے کسی طرح پانی کا بندو بست کر پاتے ہیں۔
اسی زمانہ میں ملکہ زبیدہ بنت جعفر فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ آتی ہیں۔ انہوں نے جب اہل مکہ اور حجاج کرام کو پانی کی دشواری اور مشکلات میں مبتلا دیکھا تو انہیں سخت افسوس ہوا، چنانچہ انہوں نے اپنے اخراجات سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم دے کر ایک ایسا فقید المثال کارنامہ انجام دیا جورہتی دنیا تک عالم بشریت کو یادرہے گا۔
ام جعفر زبیدہ بنت جعفربن ابو جعفر منصور ہاشمی خاندان کی چستم وچراغ تھیں۔ یہ خلیفہ ہارون رشید کی چچازاد بہن تھیں۔ ان کا نام ’’امتہ العزیز‘‘ تھا۔ ان کے دادا منصور بچپن میں ان سے خوب کھیلا کرتے تھے، ان کو ’’زبیدہ‘‘ (دودھ بلونے والی متھانی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے، چنانچہ سب اسی نام سے پکارنے لگے اور اصلی نام لوگ بھول ہی گئے۔ یہ نہایت خوبصورت اور ذہین وفطین تھیں۔ جب جوان ہوئیں تو خلیفہ ہارون رشید سے ان کی شادی ہوگئی۔ یہ شادی بڑی دھوم دھام سے ذوالحجہ 165 ہجری میں ہوئی۔ ہارون رشید نے اس شادی کی خوشی میں ملک بھر سے عوام وخواص کو دعوت پر بلایا اور مدعوین کے درمیان اس قدر زیادہ مال تقسیم کیا، جس کی مثال تاریخ اسلامیہ میں مفقود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر اس نے 50 ملین درہم خرچ کیے۔
ہارون رشید ملکہ زبیدہ سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے اپنی بیوی کو یہ کہہ کر پکارا:
’’ام نہر! ذرا ادھر آنا‘‘ زبیدہ نے بعد میں مشہور عالم اصمعی کو بلوا کر پوچھا: امیر المومنین مجھے ’’ام نہر‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں، اس کے کیا معنی ہیں؟ اصمعی نے جواب دیا: چونکہ جعفر عربی لغت میں ’’نہر‘‘ کو کہتے ہیں اور آپ کی کنیت ام جعفر ہے، اس لئے نہر معنی مراد لے کر آپ کو اس نام سے پکارا ہوگا۔
زبیدہ بڑی ہی سمجھ دار خاتون تھیں، حاشیہ برداروں کے کہنے پر کبھی فوری فیصلہ نہیں کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ ایک شاعر نے ان کی خدمت مین چند اشعار سنائے، مگر ردیف و قافیہ اور الفاظ کی ترکیب میں شاید وہ اپنا مافی الضمیر اچھی طرح سے ادا نہیں کر سکا۔ شعر کے مفہوم سے ان کی عظمت کے بجائے گستاخی عیاں تھی۔ حشم وخدم نے شاعر کی عبارت کو ملکہ کی بے ادبی پر محمول کیا اور اس کو گرفتار کرنا چاہا، مگر ملکہ نے ان سے کہا:
’’اس کو نظر انداز کردو، کیونکہ جس کی نیت اچھی بات کہنے کی ہو، مگر اس سے لغزش ہو جائے، ایسا شخص اس آدمی سے بہتر ہے، جس کی نیت بری ہو، مگر وہ بات اچھی کہہ جائے۔‘‘
ملکہ زبیدہ کی خدمت کیلئے ایک سو نوکرانیاں تھیں، جن کو قرآن کریم یاد تھا اور وہ ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتی تھیں۔ ان کے محل میں سے قرأت کی گنگناہٹ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آتی رہتی تھی۔
زبیدہ نے پانی کی قلت کے سبب حجاج کرام اور اہل مکہ کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو انہوں نے مکہ میں ایک نہر بنانے کا ارادہ کیا۔ اس سے پہلے بھی وہ مکہ والوں کو بہت زیادہ مال سے نوازتی رہتی تھیں اور حج وعمرہ کیلئے مکہ آنے والوں کے ساتھ ان کا سلوک بے حد فیاضانہ تھا۔ اب نہر کی کھدائی کا منصوبہ سامنے آیا تو مختلف علاقوں سے ماہر انجینئر بلوائے گئے۔ مکہ مکرمہ سے 35 کلو میٹر شمال مشرق میں ودایٔ حنین کے ’’جبال طاد‘‘ سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔ ایک نہر جس کا پانی ’’جبال قرا‘‘ سے ’’وادی نعمان‘‘ کی طرف جاتا تھا، اسے بھی نہر زبیدہ میں شامل کرلیا گیا۔ یہ مقام عرفات سے 12 کلو میٹر جنوب مشرق میں واقع تھا۔ علاوہ ازیں منیٰ کے جنوب میں صحرا کے مقام پر ایک تالاب بئر زبیدہ کے نام سے تھا، جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا، اس سے سات کاریزوں کے ذریعہ پانی نہر میں لے جایا گیا، پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ کی طرف اور ایک عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔ اس عظیم منصوبے پر 17 لاکھ دینار خرچ ہوئے۔
ملکہ زبیدہ نے انتہائی شوق اور جذبۂ اخلاص کے تحت نہر کی کھدائی کرائی تھی۔ وہ حجاج کرام اور اہل مکہ کو پانی کی دشواریوں سے نجات دلانا چاہتی تھیں اور یہ کام صرف خدا تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے انہوں نے کیا۔ اس کااندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو اس منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا: ’’آپ نے جس منصوبہ کا حکم دیا ہے، اس کیلئے خاصے اخراجات درکار ہیں، کیونکہ اس کی تکمیل کیلئے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹنا پڑے گا، چٹانوں کو توڑنا پڑے گا، نشیب وفراز کی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا، سیکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنی پڑے گی، تب کہیں جاکر اس منصوبہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔‘‘
یہ سن کر ملکہ زبیدہ نے جو جواب دیا، وہ دلچسپ بھی ہے اور اس سے ان کی قوت فیصلہ اور منصوبے سے دلچسپی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے چیف انجینئر سے کہا:
’’ اس کام کو شروع کردو، خواہ کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ آتا ہو۔‘‘
اس طرح جب نہر کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ملکہ کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں تھیں۔ ملکہ نے وہ تمام کاغذات لیے اور انہیں کھول کر دیکھے بغیر دریا برد کردیا اور کہنے لگیں:
’’الٰہی! مجھے دنیا میں کوئی حساب کتاب نہیں لینا، تو بھی مجھ سے قیامت کے دن حساب نہ لینا۔‘‘
ملکہ زبیدہ نے یہ عظیم الشان کام انجام دے کر حجاج کرام اور باشندگان مکہ مکرمہ کو پانی کی قلت کے سبب درپیش مشکلات کا مسئلہ حل کردیا۔ حق تعالیٰ اس نہر کو ان کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے۔
ان کی وفات بغداد میں جمادی الأولی216 ھ میں ہوئی۔
(وفیات الأعیان، البدایہ و النہایہ)
٭٭٭٭٭