روایتی چارپائیاں ایئر کنڈیشنر کا کام کرتی تھیں

ابو واسع
چارپائی فروخت کرنے والے تاجروں کا کہنا ہے کہ نواڑ کی چارپائی آج بھی لوگ پسند کرتے ہیں اور خاص طور پر سرکاری چارپائیاں آج بھی نواڑ سے بُنی جاتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب انگریز نے ڈاک بنگلے بنائے تھے جنہیں آج کے دور میںگیسٹ ہائوس کہا جاتا ہے۔ ان ڈاک بنگلوں میں جو پلنگ یا چارپائیاں ڈالی جاتی تھیں، وہ نواڑ کی ہی ہوتی تھیں۔ یہ روایت آج تک سرکاری گیسٹ ہائوسز چلی آرہی ہے کہ وہاں نواڑ کی ہی چارپائی اور پلنگ بچھائے جاتے ہیں۔ نواڑ زیادہ تر لاہور اور گجرانوالہ میں بنائی جاتی ہے۔ شفیق کا مزید بتانا تھا کہ ’’نواڑ، نائیلون سے نسبتاً سستی ہے۔ نائیلون پلاسٹک کی بنتی ہے جبکہ نواڑ سوت سے بنائی جاتی ہے۔ اسی طرح مونجھ کا بان بنتا ہے۔ مونجھ کی یہ خوبی ہے کہ وہ نواڑ کی طرح نرم نہیں ہوتا۔ لیکن نواڑ کی طرح ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ ان کے مقابلے میں نائیلون گرم ہوتا ہے اور اس سے جسم میں بادی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ بان سخت ہوتا ہے لیکن اس کی سختی کمر درد کی بیماری سے چھٹکارا دیتی ہے۔ ایک وقت تھا لوگ گرمیوں میں بان کی چارپائیاں صحن میں ڈال کر سوتے تھے۔ پٹھوں کا بان بھی لوگ پہلے بہت استعمال کرتے تھے ، گرمیوں میں اس پر اگر پانی ڈال دیا جائے تو وہ اے سی کی طرح ٹھنڈک دیتا ہے۔ چنانچہ بان پر پانی کا ہلکا چھڑکائو کرکے گرمی کو بھگایا جاتا تھا۔ پہلے دور میں مونجھ اور پٹھے کا بان استعمال کیا جاتا تھا۔ مونجھ کے کا بان ٹھنڈا ہوتا ہے اور اس کے بارے اکثر بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کہ یہ بواسیر کا اکسیر علاج ہے۔ جتنی بھی قدرتی چیزیں ہیں، ان میں اللہ پاک کی حکمت ہوتی ہے۔ لیکن ہم نے قدرتی چیزیں چھوڑ کر مصنوعی چیزیں بنا لی ہیں۔ جب آپ فطرت کے خلاف چلیں گے تو پھر بیماریاں ہی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح ہمار ے پاس یہ سوتر کی چارپائی پڑی ہے یہ بھی لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔ پہلے ایک اور سوتری سے چارپائی بنائی جاتی تھی، وہ سوتری جوٹ سے تیار ہوتی تھی۔ وہ چارپائی بھی بہت کمال ہوتی تھی، اب یہ سوتر کی بنی ہوئی چارپائی ہے جو نائیلون سے زیادہ مہنگی ہے کیونکہ اس کی بنائی میں محنت زیادہ ہے اور سوتر بھی زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ پھر یہ لکڑی کی چارپائی پر ہی بنی جاتی ہے، اس لیے اس کی قیمت پانچ چھ ہزار روپے تک جاتی ہے۔ ہم چونکہ قدیمی چارپائیاں فروخت کرنے والے ہیں اس لیے مارکیٹ سے سستی دیتے ہیں۔ یہ چارپائی آپ دیگر دکانوں سے پانچ چھ ہزار میں لیں گے، لیکن ہم پونے چار ہزار میں سیل کرتے ہیں۔ پہلے لوگ پائینتی میں مونجھ کی رسی استعمال کرتے تھے۔ اب اس میں بھی نائیلون کی رسی ڈالی جاتی ہے، نائیلون کایہ نقصان ہے کہ یہ ہاتھوں سے پھسل جاتی ہے، جب آپ کسی چارپائی کی ادوانی (پائینتی) کھینچتے ہیں تاکہ چارپائی میں تنائو آئے تو نائیلون آپ کے ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے جبکہ مونجھ کی رسی آپ کے ہاتھوں میں پھنس جاتی ہے۔ کہاجاتا ہے مونجھ کی پائینتی چنبل جیسی بیماری کے خلاف مزاحمت پیدا کرتی ہے۔ خدا جانے اس بات میں کتنی حقیقت ہے، لیکن یہ بات میں نے سن رکھی ہے‘‘۔
لکڑی کی چارپائی جو با ن اور نواڑ سے بنی ہوتی تھی گھروں کی روایت کہلاتی تھی، گھروں کی خواتین ان چارپائیوںکو وقت پڑنے پر کھڑا کرکے کسی بچے کو اس پر چڑھا کر گھروں سے جالے اتارنے کا کام بھی لے لیا کرتی تھیں۔ اسی طرح گائوں میں جہاں غسل خانے کا رواج نہ تھا وہاں نلکے کے اردگرد انہیں کھڑا کرکے ان پر چادر ڈال کر عارضی غسل خانے کا کام بھی لے لیا جاتا تھا۔ گرمیوں میںچھتوں پر یا صحن میں لائن بنا کر چارپائیاں ڈالی جاتی ہیں اور ایک سرے پر پیڈسٹل فین لگا کر سویا جاتا، لیکن یہ مناظر اب مفقود ہوتے جارہے ہیں۔ پہلے شوق سے چارپائیاں بنوائی جاتی تھیں، لیکن اب وہ شوق بھی رفتہ رفتہ ختم ہوتا چلا جارہا ہے۔ چارپائی کی بنائی بھی ایک فن ہے ایک وقت تھا کہ گلی گلی چارپائی بننے والے موجود ہوتے اور لوگوں کو گھروں کی دہلیز پر چارپائیاں بُن کر دے جایا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ روایت بھی دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ جدید دور نے لوگوں کو آسانیاں فراہم کر دی ہیں۔ ساہیوال میں بابا خاک علی نامی ایک شخص گزشتہ 32 برس سے گھروں میں جاکر چارپائیاں بن رہا ہے۔ اس نے اس کام کیلئے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کیا ہے۔ وہ موبائل فون پر چارپائی بُنائی کی بکنگ کرتا ہے اور لوگوں کے گھروں میں جاکر چارپائی بن دیتا ہے۔ اب اس کے دو بیٹے بھی آن لائن یہ کاروبار کررہے ہیں۔ بابا خاک علی سے گفتگو کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’اب بھی لوگ لکڑی کی چارپائیاں بنواتے ہیں۔ شہروں میں اگرچہ ان کا رواج ختم ہوچکا ہے، اب وہاں ڈبل بیڈ آچکے ہیں یا پھر سردیوں میں لوگ جگہ کی کمی کے باعث کمرے کو خالی کرکے قالین بچھا کر اوپر گدے وغیرہ لگا دیتے ہیں۔ یوں رضائی لحاف لے کر سوتے ہیں، لیکن دیہات کے لوگ چارپائیوں کے شوقین ہیں۔ یہ جو چارپائی میں بُن رہا ہوں یہ پھولوں والی ہے اور شوق سے بُنوائی جارہی ہے۔ اس کی صرف مزدوری 12سو روپے ہیں جبکہ اس پر میٹریل الگ ہے‘‘۔ کیا آپ ایک چارپائی کی مزدوری بارہ سو روپے لیتے ہیں تو اس پر خاک علی کا کہنا تھا کہ ’’نہیں ہم عام چارپائی کی بُنائی چھ سو روپے میں کرتے ہیں لیکن جس میں پھول بوٹے زیادہ ہوں یا پھر باریک کام ہو تو اس کی مزدوری ڈبل ہوتی ہے‘‘۔ بُنائی میں کو ن کون سا میٹریل استعمال ہوتا ہے؟ اس حوالے سے خاک علی نے بتایا کہ ’’پہلے تو کھجور کی پٹی والی چارپائی بنی جاتی تھی لیکن اب وہ پٹی ختم ہوگئی ہے۔ لیکن اس کا بان ابھی بھی استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ نواڑ کی جگہ پلاسٹک (نائیلون) کی پٹیاں استعمال ہورہی ہیں۔ اب آپ پلاسٹک اور نواڑ کا نقصان اور فائدہ پوچھیں گے تو لامحالہ نواڑ کا ہی فائدہ ہے کہ وہ پلاسٹک کے مقابلے میں ٹھنڈی ہے۔ جبکہ کھجور کی تو بات ہی الگ ہے اس پر سونا تو سنت ہے۔ کھجور کی چارپائی پر سونے والا بندہ ایک سو ایک بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اس چارپائی پر سونے والے شخص کو کبھی پیٹ میں درد، بادی، ہوا کا مرض نہیںہوگا۔ بلکہ کوئی بیماری بھی آسانی سے اس پر حملہ نہیں کر سکے گی‘‘۔ لیکن اب تو کھجور کی پٹی نہیں آرہی، کیا یہ کام ختم نہیں ہوگیا؟ تو اس پر اس کا کہنا تھا کہ ’’پٹی ختم ہوگئی ہے لیکن کھجور کا بان ابھی ہے، یہ بان ڈیرہ غازی خان میں بنایا جاتا ہے۔ پھر ٹرکوں پر ساہیوال لایا جاتا ہے، وہاں سے ہم لوگ خریدتے ہیں۔ اب کھجور والی چارپائی بمعہ بان اور پائینتی ہم 9 سو روپے میں بُن کر دیتے ہیں۔ اسی طرح سوت والی چارپائی، بان، پائینتی اور مزدوری ڈال کر 13سو روپے میں بُنائی کرکے دیتے ہیں۔ سوت والی چارپائی چونکہ پانچ چھ گھنٹے میں بنتی ہے، اس لیے اس کی مزدوری زیادہ لی جاتی ہے۔ اگر کوئی سامان اپنا دے تو پھر عام بُنائی کے پانچ سے چھ سو روپے تک وصول کرتے ہیں‘‘۔ ڈیزائن کے حوالے سے خاک علی کا کہنا تھا کہ ’’اس میں ایک تانا پیٹا ڈیزائن ہوتا ہے، جن میں تین کونی پھول بنایا جاتا ہے۔ اسے ڈبی والی چارپائی بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک پان کے پتے والا ڈیزائن ہوتا ہے۔ اسی طرح چیزیں اور نوکڑی ڈیزائن بھی ہیں۔ میں پہلے گلی گلی پھر کر چارپائیاں بُنائی کیا کرتا تھا، اب موبائل فون پر لوگ بلا لیتے ہیں۔ اب میری عمر 65 برس ہوچکی ہے۔ میں روزانہ موٹر سائیکل پر بان لاد کر چارپائی بُننے نکلتا ہوں۔ سردیوں میں دن چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے مشکل سے ایک چارپائی بنی جاتی ہے جبکہ گرمیوں میں دو چارپائیاں بُن لیتا ہوں‘‘۔ کیا روزانہ آپ کو یہ کام ملتا ہے یا اس کا بھی کوئی سیزن ہوتا ہے؟ اس پر خاک علی کا کہنا تھا کہ ’’اس کا سیزن گرمیوں میں ہے۔ روزانہ کام نہیں ملتا، بعض اوقات تو پورا مہینہ کوئی کام نہیں ہوتا اور بعض اوقات ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا اتنا کام ملتا ہے۔ گرمیوںمیں لوگوںکو چارپائیوںکی ضرورت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے گرمیاںہمارے کام کے لیے بہت موزوں ہیں‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment