عامل کا قتل گدی نشینی کا جھگڑا ہوسکتا ہے

عمران خان
کراچی میں اختیار شاہ نامی عامل کا قتل گدی نشینی کا جھگڑا بتایا جا رہا ہے۔ مقتول کی دوسری اہلیہ کا دعویٰ ہے کہ اس کے شوہر کو اس کے مرشد پیر سکندر شاہ کے بیٹے اسلم شاہ نے اپنے والد کا نام اور تصویر آستانے کے بورڈ پر استعمال کرنے پر قتل کیا ہے۔ عامل کے قتل کے چوبیس گھنٹے بعد تک پولیس قتل کا مقدمہ درج نہیں کرسکی، جس کی وجہ بتاتے ہوئے پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول نے تین شادیاں کر رکھی تھیں اور اس وقت تینوں بیویوں میں جھگڑا جاری ہے اور ہر ایک مقتول کے وارث کی حیثیت سے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرانا چاہتی ہے۔
پولیس کے مطابق پیر کی شب قائد آباد شیرپائو کالونی کے مکینوں کے ذریعے اطلاع ملی کہ علاقے میں ایک خون آلود لاش پڑی ہے جسے فائرنگ کرکے قتل کیا گیا ہے۔ مذکورہ لاش کو پولیس نے تحویل میں لے کر قانونی کارروائی کیلئے جناح اسپتال منتقل کیا جہاں پوسٹ مارٹم کے بعد پولیس کی جانب سے لاش کے ورثا کو تلاش کرنے کیلئے انٹری چلائی گئی۔ پولیس کے مطابق منگل کے روز شیر پائو کالونی کی رہائشی ایک خاتون نے قائدآباد پولیس سے رابطہ کیا اور میت دیکھنے کے بعد اس کو اپنے شوہر کی حیثیت سے شناخت کرلیا۔
پولیس کے مطابق مقتول کا نام اختیار شاہ معلوم ہوا ہے جس کا آبائی تعلق خیبر پختون سے ہے جو کچھ عرصہ قبل شیر پائو کالونی میں آکر رہائش پذیر ہوا تھا۔ ’’امت‘‘ کو ایس ایچ او قائد آباد معراج انور نے بتایا کہ مقتول نے دو شادیاں کر رکھی تھیں جس میں سے پہلی بیوی بلدیہ ٹائون میں رہائش پذیر ہے جو 6 بچوں کی ماں ہے۔ دوسری بیوی شیر پائو کالونی میں ہی مقتول کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ مقتول نے کچھ ہی عرصہ قبل شیر پائو کالونی میں اپنا آستانہ قائم کرنے کے بعد ایک ایئر ہوسٹس سے تیسری شادی بھی کی تھی جو پہلے سے 4 بچوں کی ماں ہے۔
مقتول کی بیویوں اور دیگر اہل خانہ سے پولیس کو جو ابتدائی معلومات حاصل ہوئیں ان میں بظاہر یہ قتل گدی نشینی کا تنازع معلوم ہورہا ہے۔
ایس ایچ او قائد آباد معروج انور نے امت کو مزید بتایا کہ مقتول کی دوسری اہلیہ حنیفہ نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا ہے کہ اس کے شوہر کو اسلم شاہ نامی شخص نے قتل کیا ہے۔ اسلم نے گزشتہ رات مقتول کو آخری کال کی تھی اور بات چیت کرنے کیلئے بلایا تھا۔ پولیس کے بقول مقتول کی لاش کے قریب سے پولیس کو تین خالی کارتوس ملے ہیں جن کی فارنسک لیبارٹری ٹیسٹ کی رپورٹ بھی پولیس کو موصول ہوگئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مقتول کو 30 بور پستول سے فائرنگ کرکے قتل کیا گیا اور اس پستول کے پہلے کسی بھی واردات میں استعمال ہونے کا ریکارڈ نہیں ملا ہے۔
پولیس کے مطابق مقتول کچھ عرصہ قبل تک قائد آباد کے علاقے معین آباد میں ایک معروف عامل پیر سکندر شاہ کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ پیر سکندر شاہ اس علاقے کی مشہور شخصیت ہے جن سے تعویز گنڈے لینے کیلئے دور دراز سے لوگ آیا کرتے تھے اور اختیار شاہ کو پیر سکندر شاہ کے سب سے قریب مرید ہونے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل تھا۔ کچھ عرصہ قبل پیر سکندر شاہ اورنگی ٹائون میں کٹی پہاڑی کے قریب شفٹ ہوگیا اور مقتول اختیار شاہ بھی اس کے ساتھ ہی اورنگی ٹائون چلا گیا تھا۔ جب پیر سکندر شاہ ضعیف العمری تک پہنچ گیا تو اختیار شاہ نے پیر سکندر شاہ کا نام استعمال کرکے خود تعویز گنڈے کا کام کرنا شروع کردیا تھا جس پر تقریباً 8 ماہ قبل پہلی بار اختیار شاہ اور پیر سکندر شاہ کے بیٹے اسلم شاہ کا آپس میں تلخ کلامی کے بعد جھگڑا ہوا تھا۔ کیونکہ اسلم شاہ کو اس بات کا خدشہ تھا کہ اختیار شاہ اس کی جگہ خود گدی نشین ہونا چاہتا ہے اور اس میں وہ کامیاب ہوتا جا رہا ہے۔ اس جھگڑے کے بعد اختیار شاہ اورنگی ٹائون سے اپنا بوریا بستر لپیٹ کا لانڈھی قائد آباد کے علاقے میں واپس آگیا جہاں پر لوگ اس کو پیر سکندر شاہ کے خاص مرید کی حیثیت سے جانتے تھے۔ یہاں پر اختیار شاہ نے شیر پائو کالونی میں مکان حاصل کرکے رہائش اختیار کی اور یہیں پر اس نے اپنا آستانہ کھولا جہاں اس نے تعویذ گنڈوں کا کام شروع کیا۔ اس کیلئے اختیار شاہ نے اپنے آستانے کے اوپر لگائے گئے پینا فلیکس کے بورڈ پر پیر سکندرشاہ کا نام اور تصویر بھی لگائی اور دوسری جانب اپنی تصویر اور نام لگایا۔ اس تعلق کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کی بڑی تعداد نے اس کے پاس آنا جانا شروع کردیا تھا اور اختیار شاہ کا کام کامیابی سے چل نکلا تھا۔ اسی دوران مقتول اختیار شاہ نے دوسری شادی کرنے کے بعد ایک ایئر ہوسٹس سے تیسری شادی بھی کرلی تھی۔
جب اس کے آستانے کی کامیابی سے چلنے کی اطلاعات اسلم شاہ تک پہنچی تو وہ شیر پائو کالونی میں اختیار شاہ سے بات کرنے آیا۔ پہلے اس نے اختیار شاہ کو اپنے آستانے سے اپنے والد پیر سکندر شاہ کی تصویر اور نام ہٹانے کو کہا اور اختیار شاہ کے انکار پر ان کے درمیان ایک بار پھر تلخ کلامی اور جھگڑا ہوا۔ علاقے مکین درمیان میں آئے اور اسلم شاہ واپس چلا گیا، تاہم تین روز بعد ہی اختیار شاہ کا قتل ہوگیا۔ پولیس کے مطابق جلد ہی مقدمہ درج کرکے اس معاملے کی باقاعدہ تحقیقات شروع کردی جائے گی۔ پولیس نے مقتول کا موبائل فون بھی تحویل میں لے لیا ہے تاکہ اس کے ذریعے کال ڈیٹا کا ریکارڈ نکال کر معاملے کی تہہ تک پہنچا جاسکے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment