قسط نمبر37
علم حاصل کرنے کیلئے سیدنا ابن عباسؓ کے نزدیک صبح و شام یا دوپہر کچھ اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ وہ علم کے پیاسے تھے۔ کتنی بار ایسا ہوا کہ وہ دوپہر کے وقت کسی صحابیؓ سے کسی حدیث یا واقعہ کے بارے میں پوچھنے کے لئے ان کے گھر جا پہنچتے۔ اگر وہ قیلولہ کررہے ہوتے تو یہ ان کے گھر کے باہر ہی بیٹھ جاتے اور انتظار کرتے کہ کب صاحب خانہ نیند سے بیدار ہوں اور ان کی بات سنیں، ان کے سوالات کے جوابات دیں۔
بعض اوقات وہ گھر کی چوکھٹ پر ہی لیٹ جاتے۔ گرم اور تیز ہوائیں چلتیں تو گرد و غبار سے ان کا چہرہ اَٹ جاتا۔ صحابیؓ قیلولہ سے فارغ ہو کر گھر سے باہر نکلتے، گھر سے باہر ابن عباسؓ کو دیکھتے تو کہتے: رسول اقدسؐ کے چچا زاد! آپ کو خوش آمدید! آپ نے آنے کی کیوں زحمت کی۔ مجھے پیغام بھجوا دیا ہوتا، میں خود حاضر خدمت ہو جاتا۔ سیدنا ابن عباسؓ جواب میں کہتے: چونکہ ضرورت مجھے ہے، اس لئے میںہی آپ کے پاس آنے کا زیادہ حقدار تھا۔ پھر وہ ان سے سوالات کرتے اور وہ صحابی جوابات دیتے۔
علم حاصل کرنے کیلئے علمائے کرام نے بے پناہ قربانیاں دیں اور محنتیں کی ہیں۔ ایک عالم دین کا کہنا ہے: مجھے دوران تعلیم ہریسہ (دودھ گوشت اور دلیہ سے بنی ہوئی ڈش) کھانے کا بڑا شوق تھا۔ میں اس خواہش کو ایک مدت تک اپنے دل میں چھپائے رہا۔ بارہا میں نے کوشش کی، مگر میں ہریسہ خریدنے میں ناکام رہا۔ جانتے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ ہریسہ بیچنے والا اسی وقت آتا تھا جب ہم استاذ کے پاس پڑھ رہے ہوتے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم اپنا سبق چھوڑ کر ہریسہ خریدنے چلے جاتے۔
امام مالکؒ کے ایک شاگرد کا نام یحییٰ بن یحییٰ اللیثیؒ تھا۔ یہ مسجد نبویؐ میں امام مالکؒ سے حدیث پڑھتے تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ شریف میں ہاتھی آ گیا، کوئی شخص لے آیا ہو گا۔ مدینہ شریف کے اکثر لوگوں اور طلبہ نے اس سے پہلے ہاتھی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ طلبہ نے امام مالکؒ سے اجازت لی اور ہاتھی دیکھنے چلے گئے، مگر یحییٰ اللیثیؒ نہ گئے۔ امام مالکؒ نے پوچھا: یحییٰ! کیا تم نے پہلے کبھی ہاتھی دیکھ رکھا ہے؟ یحییٰ نے جواب دیا کہ نہیں تو۔
امام مالکؒ نے کہا: تمہارے دوسرے ساتھی تو ہاتھی دیکھنے چلے گئے ہیں، تم کیوں نہیں گئے؟ یحییٰ اللیثی نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ میں نے اپنے وطن کو اس لئے چھوڑا کہ میں امام مالکؒ کو دیکھوں، ان سے علم حاصل کروں۔ میں ہاتھی دیکھنے کیلئے تو مدینہ شریف نہیں آیا۔
امام احمد بن حنبلؒ سے کسی نے پوچھا تھا:
یہ جو آپ علم حاصل کرنے کے لئے اتنے لمبے لمبے سفر کرتے ہیں، مسلسل پڑھتے اور لکھتے رہتے ہیں، غریب الوطنی اختیار کرتے ہیں، آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ اب تو آپ امام اہل سنت وجماعت ہیں۔ پورے عرب میں آپ کے علم و تقویٰ کا ڈنکا بجتا ہے۔
امام احمد بن حنبلؒ نے جواب دیا: میرے یہ قلم و دوات قبر تک میرے ساتھ جائیں گے۔
وہ لوگ جو اپنے آپ کو علامہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں اب مطالعہ کی ضرورت نہیں، بہت بڑی غلطی پر ہیں۔
علم سیکھنے میں بہت لذت ہے۔ استاذ کے حلقے میں بیٹھنا، ان سے سیکھنا بہت بڑی نعمت ہے۔ علمائے کرام کی سوانح عمریوں سے پتہ چلتا ہے کہ بڑا مقام اور مرتبہ حاصل کرنے کے لئے انہوں نے بے شمار سفر کیے، وہ راتوں کو جاگ کر پڑھتے رہے۔
ریاض الصالحین کے مولف ابو زکریا امام نوویؒ ہر روز 12دروس میں شرکت کرتے تھے۔
ایک مرتبہ امام ابن حجر عسقلانیؒ نے ظہر اور عصر کے درمیان 1500احادیث پڑھیں۔
المغنی فقہ حنبلی کی کافی بڑی اور معتبر کتاب ہے۔ابن محمدؒ نے اسے 23مرتبہ پڑھا۔
نعیم المجمر سیدنا ابو ہریرہؓ کے پاس 20سال تک پڑھتے رہے۔ (جاری ہے)