تابعین کے ایمان افروز واقعات

قسط نمبر27
دوسرا واقعہ:
قاضی ایاسؒ کی ذہانت اور فہم و فراست کا ایک اور واقعہ مشہور ہے، وہ یہ کہ کوفہ میں ایک شخص نے چالاکی اور جھوٹ کے ذریعہ یہ مشہور کر دیا کہ وہ بہت نیک ہے اور امانت دار ہے، جب لوگ کہیں سفر پر جاتے تو اس کے پاس پیسہ سونا رکھوا کر جاتے تھے۔
بعض لوگ مرتے وقت یہ وصیت کر جاتے کہ ہمارا مال اس کے سپرد کردیا جائے اور یہی ہماری اولاد کا سرپرست و نگراں ہوگا۔ اس کی جھوٹی شہرت سن کر ایک شخص نے اپنا بہت سا مال اس کے پاس بطور امانت رکھ دیا، چند دنوں کے بعد جب اسے ضرورت پڑی تو اس نے اپنے مال کی واپسی کا مطالبہ کیا، لیکن اس نے دینے سے انکار کر دیا۔ اسے یہ صورت حال دیکھ کر بڑا صدمہ ہوا اور یہ مقدمہ قاضی کی عدالت میں پیش کر دیا۔
قاضی ایاسؒ نے مقدمہ پیش کرنے والے سے پوچھا کیا مدعاعلیہ (جس پر دعویٰ کیا ہے) کو یہ معلوم ہے کہ تم میرے پاس اس کی شکایت لے کر آئے ہو؟
اس نے کہا: نہیں۔
قاضی نے کہا: آج جائو اور کل میرے پاس آنا اور ساتھ ہی مدعا علیہ کو بلانے کے لیے پیغام بھیجا، وہ قاضی کا پیغام سنتے ہی عدالت میں آیا۔ قاضی نے اسے بڑے اعزاز و اکرام سے بٹھایا اور کہا:
’’(جناب میں نے آپ کی بڑی تعریف سنی ہے، آپ لوگوں کی خدمت کا اہم فریضہ سرانجام دے رہے ہیں، میں نے آپ کو اس لیے بلایا کہ) میرے پاس ایسے یتیموں کا کثیر مقدار میں مال ہے، جن کا کوئی وارث نہیں، میں چاہتا ہوں یہ مال آپ کے سپرد کردوں، جب وہ بڑے ہو جائیں تو آپ ان کے حوالے کر دینا، کیا اتنی بڑی مقدار میں مال رکھنے کا آپ کے پاس انتظام ہے اور آپ کے پاس اتنا وقت بھی ہے کہ اس مال کی نگرانی کر سکیں گے؟ (کیا گھر میں ایسا مضبوط گودام ہوگا جس میں مال ضائع نہ ہو، کیا یہ مال آپ سنبھالنے کے لیے تیار ہیں)‘‘۔
اس نے بڑے جوش سے کہا:
کیوں نہیں جناب! مجھے خدا نے پیدا ہی عوام کی خدمت کے لیے کیا ہے، بندہ عاجز اس خدمت کے لیے بخوشی تیار ہے۔
قاضی ایاسؒ نے کہا:
’’بہت خوب، مجھے آپ سے یہی توقع تھی، آپ ایسا کریں کہ کل کے بعد (پرسوں) میرے پاس آجانا اور ساتھ دو مزدور بھی لیتے آنا۔‘‘
اس نے کہا بہت اچھا۔ یہ کہہ کر وہ اپنے گھر چلا گیا۔
دوسرے دن وعدے کے مطابق مدعی (دعویٰ کرنے والا) قاضی ایاسؒ کے پاس آیا۔ قاضی صاحب نے اسے کہا کہ جائو آج اس شخص سے جاکر اپنے مال کا مطالبہ کرو، اگر وہ انکار کرے تو اسے کہنا میں تیری شکایت قاضی کے پاس لے کے جارہا ہوں، اس نے ویسے ہی کیا، جاکر اس سے اپنے مال کا مطالبہ کیا، اس نے حسب سابق مال دینے سے انکار کر دیا۔ مالک نے دھمکی دے کر کہا کہ ’’تو اس نے کہا اگر تم میرا مال نہیں دوگے تو میں تمہاری شکایت قاضی کے پاس کروں گا۔‘‘
جب اس نے قاضی کا نام سنا تو فوراً ٹھنڈا پڑگیا، اسے اپنے پاس بٹھایا، اس کی منت کی، مال واپس لوٹایا اور کچھ مزید دے کر اسے خوش کرنے کی کوشش کی، تاکہ قاضی ایاسؒ کو اس بات کا علم نہ ہو۔
وہ اپنا مال لے کر سیدھا قاضی ایاسؒ کے پاس گیا، اس کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ اس نے مجھے میرا حق واپس دے دیا
ہے۔خدا آپ کو جزائے خیر عطا کرے، جب وعدے کے مطابق تیسرے روز وہ شخص قاضی ایاسؒ کے پاس مزدور لے کر حاضر ہوا، تو اسے دیکھتے ہی قاضی صاحب اس پر برس پڑے اور کہا:
’’بہت ہی برے آدمی ہو تم، اے خدا کے دشمن! تم نے دنیا کمانے کے لیے دین کو جال بنا رکھا ہے۔ تمہیں شرم آنی چاہئے! یہ جبہ و دستار اور یہ گھنائونا کردار۔ میری آنکھوں سے دور ہو جائو اور ابھی جاکر سب لوگوں کی امانتیں واپس کرو، ورنہ تمہیں ایسی سزا دوں گا جسے تمہاری آئندہ نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔‘‘
وہ ہانپتا کانپتا ہوا واپس گیا اور سب کے مال فوری طور پر واپس کرنے لگا۔ ان سے معافی مانگنے لگا۔ تب جاکر لوگوں کو اس کی اصلیت کا علم ہوا۔(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment