اصفہان میں زفر بن ہذیل بن قیس بن سلیم الخبری البصریؒ ایک نامی فقیہہ گزرے ہیں۔ 110 ھ میں بزمانہ ہشام بن عبدالملک بن مروان پیدا ہوئے۔ امام ابو حنیفہؒ کے ان دس اصحاب میں سے تھے، جنہوں نے امام صاحبؒ کی کتب فقہ کی تدوین میں مدد کی ہے۔
امام زفرؒ کو حاکم وقت کی طرف سے عہدئہ قضا کیلئے کہا گیا تو آپ نے اس بنا پر انکار کیا کہ وہاں تو خطا کا اندیشہ ہے اور گناہ کا احتمال۔ یہاں درس حدیث و فقہ جاری ہے، جو ثواب ہی ثواب ہے، اس لئے میں اشاعت حدیث و ترویج علم کو عہدئہ قضا سے بہتر سمجھتا ہوں۔ حاکم نے اس پر ناراضگی ظاہر کی، مگر آپ نے کوئی پروا نہ کی۔ کسی نہ کسی بہانے سے دو مرتبہ آپ کا مکان بھی گرا دیا گیا اور آپ کو اور بھی کئی قسم کی تکالیف دی گئیں، مگر آپ نے یہ عہدہ قبول نہ کیا۔ خلیفہ منصور ابو جعفر کے زمانہ میں 158ھ میں وفات پائی۔ (حدائق الحنفیہ حدیقہ دوم، ص 109)
خالد برمکی کی ولی عہد کو نصیحت
147ھ میں منصور نے خالد برمکی کو شہزادہ (مہدی) کا اتالیق مقرر کیا اور حکم دیا کہ اس کی تعلیم وتربیت کے تم ذمہ دار ہو اور ساتھ ہی حصول تجربہ کیلئے رے اور طبرستان کی حکومت مہدی کے سپرد کر دی۔
شہزادہ کا عالم شباب تھا، وہاں جاتے ہی عیش ونشاط کے جلسوں میں پڑگیا۔
خالد، مہدی کا رنگ دیکھ رہا تھا، مگر خاموش تھا کہ منع کرنے سے کہیں شہزادے کی تیز کلامی کا شکار نہ ہونا پڑے، لیکن آخر اپنے فرائض کو پہچانا اور کہا: ’’امیر المومنین کا آپ کو یہاں بھیجنے اور میری نگرانی میں رکھنے سے مطلب یہ ہے کہ سیاسی امور میں آپ کو کامل دستگاہ ہو، اطراف عالم میں بلند اقبالی اور ملک گیری کی شہرت ہو۔ یہی عمر کام کرنے کی ہے، اگر یہ ہی عمر لہو ولعب میں گزار دی تو آئندہ ملک و قوم میں کیا اعتبار ہوگا۔ مقدمات میں عدل وانصاف اور رعایا کی خبر گیری وحفاظت کے انتظامات کے بعد جو وقت بچے، اس میں سیرو شکار ہو تو کوئی مضائقہ نہیں، مگر بے تکلفی کے جلسوں سے پھر بھی پرہیز ضروری ہے۔‘‘
یہ حکیمانہ نصیحت اپنے مقصد میں کارگر نکلی اور شہزادہ نے امور سلطنت میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔