اپنی لگائی آگ نے مولانا ہزاروی کو تنہا کردیا تھا

قسط نمبر 30
محمد فاروق
محمد فاروق اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رہنما ہیں۔ برطانیہ میں مقیم محمد فاروق نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ جو نہ صرف ایک عہد کی آئینہ دار ہے، بلکہ اس میں شریعت و تصوف کے امتزاج کی لطافت بھی جابجا ملتی ہے۔ قارئین کیلئے ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے منتخب ابواب پیش کئے جارہے ہیں۔
کچھ توقف کے بعد بزرگ پھر گویا ہوئے۔ ’’یہ تو تھا ایک حال جو میں نے دیکھا۔ میں خود مولانا ہزاروی کے استقبالیہ جلوس میں شریک ہوا۔ وقت نے کروٹ لی، زمین وہی تھی خدا وہی تھا، مگر معلوم نہیں کہ اعمال و کردار میں کیا تبدیلی آئی تھی۔ میں ایک روز اسی جگہ اسی سوزوکی اسٹینڈ پر گھر جانے کے انتظار میں تھا۔ ہم پچھلی سیٹوں پر سواریوں کے پورا ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ اتنے میں مولانا ہزاروی تن تنہا آئے۔ سوزوکی کے قریب آکر فرنٹ سیٹ کا جائزہ لیا، تو پہلے سے کسی کی چادر پڑی ہوئی تھی۔ دعا سلام کے بعد مولانا نے اس چادر کو پچھلی سیٹ پر رکھ دیا اور خود آگے یہ کہہ کر بیٹھ گئے کہ کمر میں شدید درد ہے اور پیچھے بیٹھنا ان کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ کچھ دیر بعد دو نوجوان تگڑے بندے نمودار ہوئے۔ اگلی سیٹ کی طرف گئے۔ مولانا کو دیکھا تو پوچھا: ’’مولوی صاحب! ہم نے یہاں چادر رکھی تھی؟‘‘۔ ’’جی…! وہ میں نے ہی پیچھے رکھی ہے۔ مجھے کمر میں درد ہے۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھ نہیں سکتا۔ تم لوگ مہربانی کر کے پیچھے بیٹھ جائو۔ میں اگلی سیٹ کے دو بندوں کا پورا کرایہ ادا کرتا ہوں‘‘۔ ’’نہیں جناب! سیٹ ہم نے اپنے لیے رکھی تھی۔ کسی اور کے لیے نہیں۔ اترو۔ اور ہماری سیٹ خالی کرو‘‘۔
اس گفتگو اور کسی حد تک شور و غل میں سوزوکی کی دوسری سواریوں کے علاوہ سوزوکی کا ڈرائیور اور کنڈکٹر بھی آگیا۔ مگر عجیب بات یہ تھی کہ ان بیس پچیس آدمیوں میں سے کسی کی زبان پر مولانا ہزاروی کے لیے کوئی کلمہ خیر یا ہمدردی نہیں تھی۔ کسی نے بھی سادہ الفاظ میں ان نوجوانوں کو یہ تک نہیں کہا کہ تم لوگ نوجوان ہو، یہ بوڑھا بزرگ ہے، اس کو اسی سیٹ پر بیٹھنے دیں۔ آخر کار جب ڈرائیور نے بھی سخت لہجے میں کہا کہ: ’’مولوی صاحب! وقت ضائع نہ کرو۔ کسی اور کی سیٹ پر بیٹھنے کی زیادتی نہ کرو۔ بیٹھنا ہے تو پیچھے بیٹھو۔ ورنہ اترو۔ اور پیچھے کسی اور گاڑی میں آؤ۔ باقی سواریوں کو دیر ہورہی ہے‘‘۔
میں نے حیرت سے پوچھا ’’حضور…! کیا یہ سارے لوگ اس وقت مولانا کو پہچانتے نہیں تھے، کہ یہ وہی مولانا غلام غوث ہزاروی ہیں؟۔
بزرگ نے جواب میں کہا: ’’کیا غلام غوث کو کوئی پہچانتا نہیں تھا؟ نہیں…! میلمہ (مہمان)، یہ سب لوگ انہیں بہت اچھی طرح جانتے تھے اور پہچانتے تھے۔ مگر اس شخص سے نفرت ایسی ہوگئی تھی کہ کسی کی کوئی ہمدردی ان کے ساتھ باقی نہیں رہی تھی۔ ورنہ ہمارے ہاں خاص کر پختونون کے درمیان تو ویسے بھی بزرگوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ بہت سارے موقعوں پر انہی سوزوکیوں میں اگلی سیٹوں پر بیٹھنے والے جب سامنے کوئی بزرگ، زنانہ یا مریض دیکھ لیتے ہیں تو خود اتر کر ان کے لیے سیٹ خالی کرتے ہیں۔ مولانا ہزاروی کے ساتھ یہ سب کچھ اسی لیے تو ہوا کہ سب جانتے تھے وہ کون ہیں…!‘‘۔
ہم سوزوکی میں بیٹھ کر بفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ میرے ذہن میں بیک وقت تین منظر نامے گھوم رہے تھے۔ مولانا ہزاروی کے حق میں فقید المثال استقبالیہ جلوس، جس میں پورے ہزارہ ڈویژن کی مخلوق خدا امنڈ آئی تھی۔ اور جس آنکھوں دیکھا حال ابھی ابھی اس بزرگ نے بیان کیا تھا۔ پھر اسی مولانا ہزاروی کی ’’تن تنہا‘‘ سوزوکی اڈے میں آمد اور ان کے ساتھ پختون معاشرہ کی روایات کے خلاف کیا۔ انسانیت کے اصولوں کے صریح خلاف روا رکھے گئے سلوک کا آنکھوں دیکھا حال…! اور جب میں ان دو منظر ناموں میں کسی ’’مطابقت‘‘ کی تلاش میں رہا… اور سوچتا رہا کہ آخر ایسا کوں ہوا؟ کیسے ہوا؟۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ زندگی کے کسی موڑ پر حضرت ہزاروی نے ’’کمر کے درد‘‘ کے بغیر ’’کسی اور کی سیٹ پر بیٹھنے‘‘ کی کوئی ایسی غلطی کی ہو، جس کے نیتجے میں انہیں اس ’’اگلی‘‘ سیٹ سے اترنے اور پچھلی سیٹ پر بیٹھ جانے کی سزا ملی ہو؟ دفعتاً میری آنکھوں کے سامنے ایک تیسرا منظر نامہ بھی گھوم گیا۔
یہ 1970ء کے جنرل الیکشن سے پہلے کا متصل زمانہ تھا۔ تعین کے ساتھ تاریخ اور مہینہ یاد نہیں۔ اتنا یاد پڑتا ہے کہ لاہور میں مولانا غلام غوث ہزاروی کے زیر امارت کل پاکستان جمعیت العلمائے اسلام اجتماع منعقد ہوا تھا۔ یہ غالباً پورے تین دن تک جاری رہا۔ میں ان دنوں مدرسے کا بالکل ابتدائی طالب علم تھا۔ اس اجتماع کی خبریں آتی تھیں اور اس کی ’’کامیابی‘‘ اور حضرت ہزاروی کی حکمت بالغہ کے چرچے زبان زد عام تھے۔ جمعیت علمائے اسلام کے دوستوں اور مدارس کے بزرگ طلبا کی زبان پر جو ’’متفق علیہ‘‘ الفاظ تھے، وہ یہ کہ: ’’مودودیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہے‘‘۔ غلغلہ تھا کہ اب مودودیت کے فتنے کے لیے اس سرزمین پر کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔
میری جب بعد میں جماعت اسلامی کے دوستوں سے دعا سلام بنی اور بزرگ طلبا میں سے کچھ ایسے حضرات سے تعارف حاصل ہوا جو بنفس نفیس اس اجتماع عام میں شریک ہوئے تھے تو اس اجتماع کے آنکھوں دیکھے حال سے بھی آگاہی ہوئی۔ منظر یہ ہوتا تھا کہ حضرت ہزاروی اسٹیج پر آکر پہلے خدا اور رسولؐ کو گواہ بنا کر مسلمانانِ پاکستان کو ایک بہت بڑے خطرے اور فتنے سے آگاہ فرمانے کا دعویٰ کرتے۔ لوگوں سے حلفیہ وعدہ لیا جاتا کہ اگر وہ اس فتنے سے خبردار ہوئے تو ان پر لازم ہے اور ان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ جس حد تک ہو خود بھی اس فتنے سے بچیں گے، دوسروں کو بھی بچائیں گے۔ اور اسے جڑ سے اکھاڑنے میں علمائے حق کے ساتھ بھی دیں گے۔
اس کے بعد جلسے سے کسی بھی ایسے شخص کو اٹھا کر اسٹیج پر لایا جاتا تھا جو اردو پڑھ سکتا ہو۔ عموماً اگر کوئی پگڑی والا طالب علم ہاتھ اٹھا کر کہتا کہ میں اردو پڑھ سکتا ہوں، تو اسے واپس بٹھا دیا جاتا، اور کہا جاتا کہ: ’’کم بخت۔ تم اردو جانتے ہو، مگر ہمارے پاس جو یہ دوسرے حضرات تشریف لائے ہیں، یہ سمجھیں گے کہ یہ کوئی کھیل تماشا ہو رہا ہے۔ اور مداری مجمعے سے اپنا ساتھی اٹھا کر اپنی مرضی سے کوئی بات کہلوانا چاہتا ہے۔ براہ کرم کوئی غیر مولوی قسم کا آدمی اسٹیج پر آجائے۔ جو اردو پڑھنا جانتا ہو‘‘۔
آخر ایک کلین شیو، کوئی لکھا پڑھا اسٹیج پر بلایا جاتا تھا۔ حضرت ہزاروی کی طرف سے اس کے سامنے ایک کتاب پیش کی جاتی۔ اور پوچھا جاتا: ’’اس کتاب کا نام کیا ہے؟‘‘۔
’’تفہمیات‘‘۔
’’کس نے لکھی ہے؟‘‘۔
’’مولانا مودودی نے‘‘۔
’’اوہو۔! ایک تو تم سادہ آدمی اس یہودی کو مولانا کہتے ہو۔ خیر! تیرا قصور کیا ہے، ادھر ایسا ہی لکھا ہے… مولانا مودودی…!‘‘۔
’’اچھا…! یہ کتاب مودودی نے لکھی ہے نا۔ جنوں نے تو نہیں لکھی؟‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔
کتاب کھول کر ایک عبارت پڑھنے کو کہا جاتا تھا۔
عبارت کچھ اس طرح ہوتی: ’’… بقر عید کے موقع پر جانوروں کی قربانی کرنے کا حکم اسلام میں نہیں ہے، یہ محض ایک رسم ہے جو ملائوں نے ایجاد کرلی ہے، اور اس فضول رسم پر روپیہ ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ اس روپے کو کسی اجتماعی مفاد کے کام پر خرچ کیا جائے‘‘۔
’’بس، بس! خدا کے لیے آگے مت پڑھو! سنا تم لوگوں نے؟‘‘۔
’’قربانی اللہ کے رسولؐ نے کی ہے یا نہیں؟‘‘۔
’’کی ہے‘‘۔
’’صحابہ کرامؓ کا عمل رہا ہے کہ نہیں؟‘‘۔
’’رہا ہے‘‘۔
’’مودودی تو کہتا ہے کہ جانوروں کی قربانی کا کوئی حکم اسلام میں نہیں ہے۔ اب تم ہی بتاؤ… ہم مودودی کی مان لیں۔ یا اللہ کے رسولؐ ’’کی؟… اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ سو یہودی… ایک مودودی‘‘۔
… اور پھر مجمع سے یہی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔
’’سو یہودی… ایک مودودی‘‘
حالانکہ کتاب کی مکمل عبارت یوں ہے کہ: ’’کچھ مدت سے اخبارات میں یہ غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ بقرعید کے موقع پر جانوروں کی قربانی کرنے کا کوئی حکم اسلام میں نہیں ہے…‘‘۔
دراصل جملے کے ابتدائی الفاظ پر ہاتھ رکھ کر بقیہ حصے ’’بقرعید کے موقع پر جانوروں کی قربانی کرنے کا حکم اسلام میں نہیں ہے‘‘۔ کو پڑھوایا جاتا…۔
جمال یار میں رنگوں کا امتزاج تو دیکھ سفید جھوٹ ہے ظالم کے سرخ ہونٹوں پرجان عزیز! جب ’’علمائے حق‘‘ کی اس ’’پاکیزہ‘‘ محفل میں سچ اور حق کے اظہار کا یہ عالم تھا اور ایک بندہِ خدا کی توقیر اس طرح سر بازار نیلام ہو رہی تھی۔ خالص اس گناہ کے پاداش میں کہ اس نے ایک رب کے سوا کسی اور کو رب ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ تو خدا اور اس کے فرشتے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ نہ خدا کے کراماً کاتبین کی کتابوں میں اس جرم کو حرف بحرف لکھنے… اور اسٹیج پر تشریف فرما ’’علمائے حق‘‘ سامعین کی موجودگی کو اس تحریر میں شامل کرنے کے لیے جگہ کم پڑ گئی تھی، نہ خدا کی سنت ان علمائے نبی اسرائیل ثانی کے حق میں تبدیل ہوئی تھی۔
’’باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ، اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو‘‘۔ (البقرہ۔ 42)
مگر جب جانتے بوجھتے حق کو چھپانے اور مشتبہ کرنے کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، اور علم کے باوجود حق کو ماننے اور اس کے اظہار سے انکار کیا جاتا ہے، تو خدا کا ایک اور فیصلہ سامنے آتا ہے۔
’’ہم اسی طرح اس کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر رہے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہیں لائے تھے، ہم انہیں ان کی سر کشی ہی بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘ (الاانعام 110-)۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment