اسرائیل نے تاریخی قرآنی نسخے پر بھی حق جمالیا

ضیاء الرحمان چترالی
ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل نے صرف فلسطینیوں کو ان کی آبائی جائیدادوں سے محروم نہیں کیا، بلکہ اس نے مسلم امہ کی ثقافتی، علمی اور تاریخی ورثے پر بھی ڈاکہ ڈالا ہے۔ اس کا ثبوت اسرائیل کی نیشنل لائبریری کی جانب سے جاری تاریخی کتابوں کی نمائش ہے۔ جس میں آب زر سے لکھا ہوا ایک ہزار برس قدیم تاریخی قرآنی نسخہ بھی شامل ہے۔ یہ مصحف مراکشی بادشاہ سلطان الکحل نے خود لکھ کر صلاح الدین ایوبیؒ کے فرزند کو ہدیہ کیا تھا۔ مسجد اقصیٰ کیلئے وقف یہ تاریخی مصحف برسوں پہلے گم ہوگیا تھا۔ اب اسے اسرائیل انتظامیہ نے نمائش میں پیش کرنے کے ساتھ نیشنل لائبریری کی ویب سائٹ پر بھی ڈال دیا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق عرب بالخصوص مراکش میں سوشل میڈیا پر یہ بحث زور و شور سے جاری ہے کہ اسلامی ممالک عالمی قوانین کے مطابق اسرائیل سے اپنا علمی و تاریخی ورثہ واپس لینے کی حکمت عملی اپنائیں، جسے قابض صہیونیوں نے مختلف طریقوں سے ہتھیا کر اپنی نیشنل لائبریری کی زینت بنالیا ہے۔ مراکشی نوجوانوں کا غم و غصہ اس وقت مزید بڑھ گیا، جب مراکش کی ڈیجیٹل لائبریری کے ڈائریکٹر عبد الصمد بلکبیر نے اسے اسرائیلی ویب سائٹ سے ڈائون لوڈ کرکے اپنی سائٹ پر ڈال دیا۔ اسرائیل کی جانب سے یہ کوئی پہلی واردات نہیں ہے۔ وہ اب تک مسلمانوں کے تاریخی نوعیت کے 40 ہزار مخطوطات ہتھیا چکا ہے۔ جنہیں اسرائیل کی نیشنل لائبریری میں ’’مجموعۃ یہودا‘‘ (Yahoda Collection) کے نام سے الگ حصے میں جمع کیا گیا ہے۔ یہودا نامی ایک یہودی نے قیام اسرائیل سے قبل ہی اسلامی مخطوطات کو جمع کرنا شروع کیا تھا۔ اس نے دمشق، القدس سمیت مختلف شہروں سے معمولی قیمت کے عوض کئی تاریخی مخطوطے حاصل کرکے اپنی لائبریری بنائی تھی۔ اب یہ لائبریری اسی شخص کے نام سے نیشنل لائبریری آف اسرائیل کا حصہ ہے۔ بلکبیر کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا تاریخی ورثہ حاصل کرکے پھر اس کی نمائش کرنا اسرائیل کا ایک ہتھکنڈا ہے، جو مسلمانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ تمہارا علمی ورثہ بھی ہم حاصل کرچکے ہیں۔ مراکشی پروفیسر احمد ویحمان کا الجزیرہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسرائیل نے نمائش میں جس قدیم قرآنی مصحف کو پیش کیا ہے، اس کی اپنی تاریخی اہمیت ہے۔ اسے بنو مرین کے دور حکومت میں مراکشی بادشاہ ابو الحسن المعروف سلطان کحل نے خود لکھا تھا۔ آب زر سے اس نسخے کو لکھنے کے بعد شاہ کحل نے اسے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے فرزند سلطان افضل کو ہدیہ کیا تھا۔ سلطان افضل نے دیگر بادشاہوں کی طرح یہ قیمتی مصحف مسجد اقصیٰ کیلئے وقف کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ زمانہ قدیم سے مختلف ممالک کے حکمراں نادر و نایاب اشیا حرمین شریفین کی طرح مسجد اقصیٰ کیلئے بھی ہدیہ کیا کرتے تھے۔ مسجد اقصیٰ کی لائبریری کے ڈائریکٹر رضوان عمرو کا کہنا ہے کہ یہ ہدایا مسجد اقصیٰ کے مکتبے میں محفوظ تھے۔ تاہم اسرائیلی قبضے کے بعد بیشتر حصہ صہیونی انتظامیہ ہتھیا چکی ہے۔ ان میں صرف مخطوطوں کی تعداد 40 ہزار ہے۔ یہ مخطوطے مسجد اقصیٰ کے علاوہ القدس کی مختلف لائبریریوں میں محفوظ تھی۔ ان میں کچھ کو تو 1948ء میں ہی چرایا گیا تھا۔ باقی حصہ 1967ء میں چرایا گیا۔ اب مسجد اقصیٰ میں صرف 8 ہزار مخطوطے باقی رہ گئے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اسرائیلی فوجی القدس پر قبضے کے بعد وہاں کی مساجد، لائبریریوں اور لوگوں کے گھروں سے قدیم کتب کو زبردستی لے گئے۔ مذکورہ مراکشی مصحف کے علاوہ قرآن کریم کے کئی نادر تاریخی نسخے بھی اسرائیلی لائبریری میں موجود ہیں۔ رضوان عمرو نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جب ہم نے اسرائیلی لائبریری کی ویب سائٹ کا وزٹ کیا تو حیران رہ گئے کہ علامہ ابن تیمیہ کے ہاتھ کی لکھی کتاب ’’حدوث العالم‘‘ کا مخطوطہ وہاں موجود ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے یہ کتاب عقائد پر لکھی تھی۔ مگر چھپی نہیں تھی۔ اس وقت اس کتاب کا یہی واحد قلمی نسخہ ہے، جو اسرائیل کے پاس محفوظ ہے۔ کتابوں کے علاوہ اس شہر میں موجود دیگر قدیم ثقافتی اشیا کو بھی بری طرح لوٹا گیا۔ یہ تاریخی اشیا اب اسرائیل کے تجائب گھروں میں محفوظ ہیں۔ رضوان عمرو کا کہنا تھا کہ اس کا نقصان فلسطینیوں کے گھروں کی لوٹ مار اور جائیدادوں کو ہتھیانے سے بڑھ کر ہے۔پروفیسر ویحمان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک مہم چلا رہے ہیں تاکہ حکومتِ مراکش کو مجبور کیا جائے کہ وہ مذکورہ تاریخی مصحف سمیت مراکش کی طرف سے مسجد اقصیٰ کی جانے والی تمام اشیا کو اسرائیل سے واپس لیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے عالمی قوانین موجود ہیں اور کئی ممالک اپنا ورثہ دوسرے ممالک سے واپس لے چکے ہیں۔ سوشل میڈیا میں متحرک عرب صارفین نے اسلامی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھائیں اور اسرائیل سے اپنا ورثہ واپس لینے کی حکمت عملی اپنائیں۔ رضوان عمرو کا کہنا ہے کہ خدا کا شکر کہ اب بھی مسجد اقصیٰ ہمارے پاس ہے۔ اسی کی بنیاد پر ہم اگر حوصلہ کریں تو اپنا تاریخی علمی و ثقافتی ورثہ اسرائیل سے واپس لے سکتے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment