عمران خان
حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے زر مبادلہ کی ترسیل خلاف ایف آئی اے کے کریک ڈائون میں اب تک کوئی بڑی مچھلی ہاتھ نہیں آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس مذم دھندے میں ملوث اہم افراد خود کو بچانے کیلئے قانون میں موجود خامیوں کو استعمال کررہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حوالہ ہنڈی کے بڑے نیٹ ورک چلانے والے ماسٹر مائنڈ کسی بھی قسم کی دستاویزات پر نہ دستخط کرتے ہیں اور نہ ہی کمپنیوں کے ریکارڈ میں اپنے نام شامل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف کسی قسم کا دستاویزی ریکارڈ نہ ملنے پر انہیں ایف آئی اے کی تحقیقات اور مقدمات میں شامل نہیں کیا جا رہا۔ ذرائع کے بقول اس ضمن میں ایف آئی اے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایف آئی اے تفتیشی افسران کے تحریری بیانات عدالتوں میں قلمبند کرانے کے بعد ان ماسٹر مائنڈ ملزمان کو اعانت جرم میں نرغے میں لایا جاسکتا ہے۔ تاہم ان کو بچانے والے بااثر افراد اعلیٰ حکام پر دبائو ڈال کر ایف آئی اے کے تفتیشی افسران کو یہ اختیار استعمال کرنے کا موقع ہی نہیں دے رہے۔
ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں میں ایف آئی اے کراچی کے کرائم اینڈ اینٹی کرپشن سرکل، ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل اور ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کے تحت بیرونی ممالک سے اربوں روپے کا قیمتی زر مبادلہ غیر قانونی طریقوں سے کراچی منتقل کرنے والی مافیا کیخلاف 20 مختلف کارروائیاں کی گئیں، جس میں حوالہ ہنڈی میں ملوث پانچ ایجنٹوں، پانچ تاجروں اور ایک منی چینجر کے دو ملازمین سمیت 13 افراد کو حراست میں لے کر حوالہ ہنڈی اور ٹیکس چوری کے الزامات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے، جن میں بعد ازاں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات بھی شامل کی گئیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر ان تمام کارروائیوں میں لائسنس یافتہ ایک ہی منی ایکسچینج کمپنی، میگا کرنسی کے خلاف کارروائی کی گئی۔ لیکن اس کے خلاف اب تک ہونے والی تحقیقات میں اصل ملزمان کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے کی ٹیموں نے ایئر پورٹ، گل پلازہ، اکبر کلاتھ مارکیٹ، شارع فیصل اور صدر زینب مارکیٹ کے علاقوں میں جن کمپنیوں کے خلاف حوالہ اور ٹیکس چوری کے الزامات کے تحت کارروائیاں کیں، ان میں مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ اور میگا کرنسی ایکسچینج زیادہ معروف ہیں۔ تاہم مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کمپنی کے سینما کے مالک اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے بھائی ندیم مانڈوی والا کو گرفتار کرنے کے بجائے ان کے ایک ملازم کو حراست میں لیا گیا اور اس کو بھی ایک روز میں ابتدائی تحقیقات کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ اس کارروائی کو چھ روز گزر چکے ہیں اور اب تک کئی ثبوت و شواہد سامنے آنے کے باوجود نہ تو ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے اور نہ ہی متعلقہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں پہلے ایف آئی اے حکام کی جانب سے کارروائی کے بعد یہ بیان سامنے آیا تھا کہ چونکہ کارروائی جمعہ کی شب ہوئی تھی اور ہفتہ اور اتوار کو اسٹیٹ بینک میں تعطیل کی وجہ سے مقدمہ درج نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ حوالہ ہنڈی کا مقدمہ درج کرنے کیلئے ایف آئی اے کو اسٹیٹ بینک کے منی ایکسچینج مانیٹرنگ اور رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ سے تحریری کمپلین حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مذکورہ کارروائی کے وقت ایف آئی اے حکام کا دعویٰ تھا کہ مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کے تحت صدر کے ایٹریم مال میں چلائے جانے والے جدید سینما گھر کا سامان اور فلمیں وغیرہ در آمد کرنے میں مانڈوی والا کمپنی کی جانب سے نہ صرف انڈر انوائسنگ کرکے بھاری ٹیکس چوری کیا گیا بلکہ رقم کی ادائیگی بھی حوالہ کے ذریعے کی جاتی رہی۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کو ابتدائی طور پر ہی 12 کروڑ روپے کی منتقلی کے ثبوت مل گئے تھے، یہ ثبوت ایف آئی اے افسران کو اس سے قبل کی گئی ایک کارروائی میں گرفتار ہونے والے حوالہ ایجنٹ شکیل جعفرانی سے کی گئی تفتیش میں ملے تھے۔ شکیل جعفرانی نے تحقیقات میں انکشاف کیا تھا کہ اس نے گزشتہ برسوں میں اومنی گروپ اور مانڈوی والا گروپ سمیت سینکڑوں دیگر کمپنیوں کیلئے زر مبادلہ کی غیر قانونی منتقلی کا کام کیا تھا۔ تاہم تمام ثبوت ملنے اور اسٹیٹ بینک کی چھٹیاں ختم ہوئے چار روز گزرنے کے باوجود مانڈوی والا کمپنی کے خلاف نہ تو باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا اور نہ ہی ندیم مانڈوی والا کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اسی طرح ایف آئی اے نے دو ہفتے قبل کراچی میں اہم سیاسی شخصیات اور سرکاری افسران کی رقوم حوالہ، ہنڈی اور منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنے کے الزام میں شارع فیصل پر نرسری کے قریب امبر پرائڈ کی دکان نمبر 3 میں قائم میسرز میگا کرنسی ایکسچینج کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ پر چھاپہ مارکر وہاں موجود منیجر سطح کے دو افسران نعمان خان اور محمد تنویر کو حراست میں لیا تھا۔ اس موقع پر اسٹیٹ بینک کے افسر اور ایکسچینج کے افسران و ملازمین کی موجودگی میں ملکی و غیر ملکی رقوم و دیگر ریکارڈ ضبط کیا گیا تھا۔ کارروائی میں ایکسچینج سے دو کروڑ 26 لاکھ 39 ہزار سے زائد ملکی و غیر ملکی کرنسی برآمد ہوئی، جس میں پرائز بانڈ، ڈالر، یورو اور دیگر کرنسی شامل تھی۔ اس کے علاوہ ضبط کئے گئے سامان میں موبائل فونز بھی شامل تھے، جن میں حوالہ ہنڈی کے کاروبار سے متعلق ٹیکسٹ میسجز اور وائس میسجز موجود تھے۔ جبکہ ٹیلی گرافک ٹرانسفر سیلنگ (ٹی ٹی ایس) کے ای میلز ریکارڈ اور لیپ ٹاپ بھی شامل تھے۔ اس کارروائی کے بعد ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزمان کے خلاف ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل میں مقدمہ الزام نمبر13/18 زیر دفعہ 4/5/8/23 فارن ایکسچینج ریٹ ریگولیشن (ایف ای آر) 1947، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کی سیکشن 3/4 کے تحت درج کر کے تفتیش شروع کردی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کمپنی کے خلاف ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قوانین کے تحت تمام کرنسی ڈیلرز کا سال یا چھ مہینے میں ایک بار آڈٹ لازمی ہے اور اس مقصد کیلئے اس ڈپارٹمنٹ میں 200 سے زائد اہلکاروں کی نفری موجود ہے۔ جبکہ شہر میں اس وقت 250 کے قریب لائسنس یافتہ کرنسی ڈیلر کام کررہے ہیں، جن کا سال میں ایک بار آڈٹ کرنا مشکل نہیں ہے۔ تاہم اس کے باجو د میگا کرنسی ایکسچینج کی اس برانچ کا گزشتہ دو برس سے آڈٹ نہیں ہوا تھا۔ ایف آئی اے حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ گرفتار ملازمین نے اپنے بیانات میں ایف آئی اے افسران کو آگاہ کیا تھا کہ ان کے مالک کی حیثیت سے خالد نامی شخص دفتر میں بیٹھتے تھے۔ ذرائع کے مطابق جس وقت ایف آئی اے نے چھاپہ مارا تو خالد کے ایک بھائی کمپنی کے دفتر میں آگئے اور انہوں نے ایف آئی اے افسران کو بتایا کہ یہ ان کے بھائی کی برانچ ہے۔ جس کے بعد اسی رات کمپنی کے مالک خالدکی تلاش میں ایف آئی اے کی ٹیموں چھاپے مارنا شروع کئے۔ لیکن اگلے روز درج ہونے والے مقدمہ میں خالد کا نام میگا ایکسچینج کے مالک کے طور پر شامل نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ بتاتے ہوئے ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر کا کہنا تھا کہ مبینہ ملزم خالد کے حوالے سے بعض بااثر شخصیات نے ایف آئی اے حکام سے ملاقاتیں کیں اور انہیں باور کرایا کہ ملزم کا نام کمپنی کے کسی ریکارڈ میں مالک یا ڈائریکٹر کی حیثیت سے موجود نہیں ہے اور نہ ہی اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی میں ان کا نام موجود ہے۔ اس لئے قانونی طور پر انہیں ملزم قرار دے کر گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ ذرائع کے بقول تفتیشی افسران پر بھی دبائو ڈالا گیا کہ وہ پہلے ریکارڈ حاصل کریں اور کمپنی کے مالک کا عہدہ مقدمہ میں نامزد کردیں اور کسی شخص کا نام نہ لکھیں۔ جس کے بعد تحقیقات صرف دو گرفتار ملازمین سے تفتیش تک ہی محدود کردی گئیں۔
ذرائع کے مطابق میگا کرنسی ایکسچینج اسٹیٹ بینک کے کرنسی ایکسچینج مانیٹرنگ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بی کیٹیگری کی لائسنس یافتہ کمپنی ہے، جو قوانین کے تحت 25 لاکھ تک کی کرنسی میں ڈیل کرسکتی ہے، تاہم جب ایف آئی اے کی ٹیم نے چھاپہ مارا تو اس ایجنسی میں 3 کروڑ روپے تک کی ڈیلنگ ہورہی تھی۔