مرزا عبدالقدوس
؏پتنگ کی ڈور میں پاؤں پھنسنے سے لاہور کے علاقے دھرم پورہ میں آٹھ سالہ عمر کی ہلاکت کے بعد لاہور میٹرو پولیٹن کارپوریشن بسنت کے خلاف کھل کر میدان میں آگئی ہے۔ ممکنہ طور پر آج یعنی جمعرات کو میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے اجلاس میں بسنت پر سے پابندی اٹھائے جانے کے خلاف قرارداد بھی منظور کی جا سکتی ہے۔ پنجاب حکومت فروری کے دوسرے ہفتے میں بسنت منانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کر چکی ہے، جس کا اعلی عدلیہ نے بھی نوٹس لے رکھا ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پتنگ کی ڈور کی وجہ سے کم سن بچے کی موت کے بعد عدالت بسنت پر پابندی لگا دے گی۔ دس سال پہلے اسی طرح کے خونیں واقعات کے بعد سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے بسنت پر پابندی لگائی تھی، جسے موجودہ پی ٹی آئی حکومت نے تفریح کے نام پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ عام لوگ بھی بسنت کو ایک خونی تفریح اور خونی کھیل قرار دیتے ہیں۔ اس کا تازہ ثبوت دھرم پورہ کے علاقے میں عمر کی ہلاکت ہے۔ آٹھ برس کا عمر اپنے گھر کی چھت پر کھیل رہا تھا کہ کٹ کر آنے والی پتنگ کی کیمیکل ڈور اس کے پاؤں میں آکر الجھ گئی۔ عمر نے ڈور سے پاؤں نکالنے کے لئے کافی کوشش کی، لیکن کم عمری کی وجہ سے اس کے پاؤں مزید الجھ گئے اور اسی کوشش میں وہ بے خیالی میں چھت سے نیچے اپنے صحن میں چار پائی پر آ گرا۔ بدقسمتی سے اس کا سر صحن میں پڑی چار پائی کی لکڑی کی پٹی پر لگا اور پھٹ گیا۔ خون میں لت پت عمر کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا۔ اس دوران سر پر شدید چوٹ آنے اور خون بہہ جانے کے سبب وہ بے ہوش ہوگیا تھا۔ تین دن عمر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد پرسوں (منگل کے روز) صبح چار بجے زندگی کی بازی ہار کر ابدی نیند سوگیا۔ اس کے نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں مقامی افراد اور علاقے کے لوگوں کے علاوہ لاہور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے میئر کرنل (ر) مبشر جاوید نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر لوگوں نے حکومت پنجاب کی جانب سے بسنت منانے کی اجازت دینے کے فیصلے پر شدید ناراضگی اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ میئر لاہور نے بھی صوبائی حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے بسنت پر دوبارہ پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ آٹھ سالہ عمر کی نماز جنازہ میں تحریک انصاف کے کسی قابل ذکر رہنما نے شرکت نہیں کی۔ عمر غریب والدین کا بیٹا تھا، جو اپنے ہی گھر کے اندر کھلتے ہوئے بسنت اور پتنگ کی ڈور کی نذر ہوگیا۔
مقامی ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے چند اراکین اسمبلی بھی بسنت کو ایک خونیں کھیل سمجھ کر اس پر پابندی برقرار رکھنے کے حامی ہیں۔ لیکن روشن خیال اور آزاد خیال طبقے کی آشیر باد حاصل کرنے اور اپنی حکومت کو سیکولر و لبرل ثابت کرنے کے لئے اس کے بعض فیصلہ ساز بسنت منانے کے پُر جوش حامی ہیں اور اسے مثبت تفریحی سرگرمی کے ساتھ ساتھ بہت اچھی معاشی سرگرمی بھی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے اس سلسلے میں پہلے ہی پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے بسنت پر عائد دس سالہ پابندی کے خاتمے کی وجوہات جاننے کے لئے جواب طلب کر رکھا ہے۔ اب آٹھ سالہ بچے کی ہلاکت نے مزید سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ لاہور کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن)، جس کے دس سالہ دور حکومت میں بسنت پر پابندی برقرار رہی اب بھی وہ پابندی لگانے کی حامی ہے۔ نون لیگ کے میئر اور دیگر منتخب ارکان اسمبلی بسنت منانے کے فیصلے کے خلاف میدان میں آگئے ہیں اور اسے عوام کے تفریح کے بجائے خونی کھیل قرار دے رہے ہیں۔
لاہور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے دو ڈپٹی میئرز نے بسنت کی اجازت دینے کو عوام دشمنی اور ان کا سر عام خون بہانے کے مترادف قرار دیا۔ لاہور کے ڈپٹی میئر حاجی اللہ رکھا نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’بسنت اگر کھیل ہے تو یہ ایسا کھیل ہے، جس سے چھوٹے بچے، بچیوں اور بڑوں سب کا خون بہتا ہے۔ میرے خیال میں پتنگ اڑانا نہ تو قومی تہوار ہے اور نہ اس کا کوئی معاشرتی پہلو ہے۔ لیکن چونکہ پی ٹی آئی حکومت کا ایجنڈا ناچ گانا، ہلہ گلہ اور مخلوط محفلوں میں شور شرابا ہے، اس لئے اکٹھے ہوکر ’’بو کاٹا‘‘ کے نعرے لگانا بھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’پتنگ اڑانے سے بلاشبہ اسلام کے کسی حکم کی نفی نہیں ہوتی۔ لیکن جس تفریح میں نہ صرف بے حیائی کا پہلو نمایاں ہو کر سامنے آئے، بلکہ انسانوں کا خون بھی بہے اور اس پر کئی برسوں سے پابندی عائد کی جا چکی ہو، اسے دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دینا عوام کو اذیت، تکلیف اور ان کا خون بہانا ہے۔ جیسا کہ پرسوں کے واقعے میں ہوا ہے اور ایک بچے کی موت واقع ہوئی۔ ہم نے پچھلے اجلاس میں بھی اس ایشو پر بات کی تھی اور آج کے اجلاس میں نہ صرف بسنت پر پابندی لگانے کا پر زور مطالبہ کریں گے، بلکہ اگر مناسب سمجھا گیا تو پابندی عائد کرنے کے حق میں قرارداد بھی لائیں گے‘‘۔
لاہور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ایک اور ڈپٹی میئر نذیر احمد سواتی کے مطابق، شہباز شریف حکومت اور انتظامیہ نے بڑی مشکل سے لوگوں کو ایک ایسی نام بہاد تفریح سے نجات دلائی تھی، جو صرف ایک سیزن میں درجنوں افراد کی موت کا سبب بنتی تھی۔ پولیس نے مانجھے والوں، دھاتی ڈور بنانے والوں، شیشہ استعمال کرنے والوں کے خلاف بڑے آپریشن کئے۔ ان کو اس کام سے بڑی سختی اور محنت کے بعد روکا گیا، تاکہ وہ اپنے گھروں کی چھتوں اور پارکوں میں بھی محفوظ رہ سکیں۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے نذیر احمد سواتی کا کہنا تھا کہ ’’موجودہ حکومت نے بسنت کی دوبارہ اجازت دینے کا فیصلہ کیا اور اس کا ابھی سے نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ گزشتہ اجلاس میں بھی میں نے تقریر کی تھی اور وزیر اعظم عمران خان سے درخواست کی تھی کہ وہ اسپورٹس میں صحت مندانہ کھیلوں کے فروغ کے لئے اقدامات کریں۔ ہاکی، فٹ بال جیسے کھیل زبوں حالی کا شکا ر ہیں۔ ان کی سرپرستی کریں اور تفریح کے نام پر بسنت کی اجازت دے کر لوگوں کا خون نہ کریں۔ اب دوبارہ اجلاس میں بھی لاہور کے منتخب نمائندے اس خونی کھیل پر پابندی لگوانے کے لئے ہم آواز ہوں گے‘‘۔