امت رپورٹ
سندھ میں ان ہائوس تبدیلی لانے کے لئے مطلوبہ نمبرز دستیاب نہ ہونے کے باوجود تحریک انصاف نے اس ’’مشن‘‘ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اپنی پس پردہ سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اور اس سلسلے میں مختلف آپشنز زیر غور ہیں۔ ان میں سے ایک نیا طریقہ دریافت کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ تاہم آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی میں واضح اکثریت رکھنے والی پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ کو نمبرز میں ہیرا پھیری کر کے ہٹانے کے کسی بھی طریقے کو آزمایا گیا تو اس سے آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین کی رو سے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا رکن ایک ہو یا پچاس، سب نااہلی کی زد میں آجائیں گے۔
واضح رہے کہ ای سی ایل پر 172 افراد کے نام ڈالنے کے معاملے اور سندھ میں گورنر راج سے متعلق پی ٹی آئی رہنمائوں کے بیانات پر چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی جانب سے نوٹس لئے جانے کے بعد یہ تاثر ابھرا تھا کہ سندھ میں اقتدار کی تبدیلی کے حوالے سے جاری سرگرمیوں کو بریک لگ گیا ہے۔ تاہم یہ تاثر درست نہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں موجود ذرائع کے بقول اگرچہ گورنر راج کا آپشن فی الحال زیر غور نہیں۔ لیکن وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لئے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس عمل سے واقف جی ڈی اے کے ایک اہم رکن نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے یہ آپشن اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ رائے شماری کے موقع پر پیپلز پارٹی کے وہ ارکان Abstain (لاتعلق) ہو جائیں گے، جو پی ٹی آئی کے بقول پارٹی قیادت سے انحراف کر کے اب اس کے رابطے میں ہیں، تاکہ ان کو نااہلی سے بچایا جا سکے۔ جی ڈی اے کے رکن کے مطابق اٹھارہویں ترمیم کے بعد وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کوئی رکن پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر نااہلی کی زد میں آئے گا۔ تاہم اگر وہ رائے شماری میں حصہ ہی نہ لے تو پھر اس نااہلی سے بچ سکتا ہے۔ جبکہ اس بارے میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے تحریک انصاف کو حساب کمزور ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی والوں کا حساب کمزور ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ اسمبلی میں 99 ارکان ہیں۔ لہٰذا وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے اپوزیشن کو ان کے 49 ارکان توڑنے ہوں گے، بیس بائیس سے کام نہیں چلے گا۔ چنانچہ تحریک انصاف ان ہائوس تبدیلی کے ذریعے سندھ میں حکومت گرانے کا خواب دیکھنا چھوڑ دے۔
تاہم ’’امت‘‘ کی ریسرچ کے مطابق آئین میں ایسی کوئی شق نہیں کہ اگر کسی پارٹی کے ایوان میں موجود کل ارکان میں سے نصف ایم پی ایز توڑ لئے جائیں تو ایک گروپ کی شکل میں وہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کے آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کسی بھی پارٹی کا رکن وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے اگر اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو وہ نااہلی کی زد میں آ جائے گا۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ اجتماعی صورت میں اسے یہ قدم اٹھانے کی اجازت ہوگی۔ اسی طرح اگر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر کوئی رکن رائے شماری میں حصہ نہیں لیتا تو وہ بھی نااہلی کی زد میں آئے گا۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل دونوں پارٹیوں کے بیشتر رہنما آئین کا مطالعہ کئے بغیر مختلف دعوے کرنے میں مصروف ہیں۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ آئینی رکاوٹوں کے باوجود پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی کے ارکان کو توڑ کر وزیر اعلیٰ سندھ کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس کے لئے بلوچستان ماڈل اختیار کیا جائے گا، جہاں مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری کے خلاف ان کی اپنی ہی پارٹی کے ارکان کو استعمال کیا گیا تھا۔ تاہم تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اٹھارہویں ترمیم کا اطلاق جب بھی ہونا تھا، لیکن اس سے بے پرواہ ہو کر نون لیگ کے ارکان اپنے ہی وزیر اعلیٰ کے خلاف بغاوت کر کے ووٹ دینے کی تیاری کر رہے تھے۔ تاہم شدید دبائو کے نتیجے میں ثناء اللہ زہری کو مستعفی ہونا پڑا، ورنہ یہ طے تھا کہ نون لیگ کے منحرف ارکان بھی ان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دیتے۔ ذرائع کے مطابق سندھ میں بھی یہی عمل دہرانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ سندھ مستعفی نہ ہوئے تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی اور اس میں مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے باغی ارکان بھی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیں گے۔ ذرائع کے بقول اٹھارہویں ترمیم کے تحت پارٹی پالیسی کے برخلاف ووٹ دینے والے پارٹی رکن کی نااہلی کا عمل خاصا پیچیدہ اور طویل ہے۔ پی ٹی آئی اسی کا ایڈوانٹیج لینے کی تیاری کر رہی ہے۔ آئین میں یہ تو لکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے پارٹی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ دینے والا کوئی بھی رکن نااہل ہو جائے گا۔ لیکن یہ نہیں لکھا کہ اس کا ووٹ کار آمد نہیں ہو گا۔ ذرائع کے بقول اگر وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد لائی جاتی ہے تو اس کے حق میں پیپلز پارٹی کے ارکان کے ووٹ کارآمد ہوں گے۔ تاہم ان کی نااہلی کا پراسس شروع ہو جائے گا، جو خاصا طویل ہے۔ اس کے لئے پارٹی سربراہ کو مذکورہ باغی رکن کو اظہار وجوہ کا نوٹس دینا ہوگا۔ پھر متعلقہ رکن اس اظہار وجوہ کا جواب دے گا۔ بعد ازاں رکن کی نااہلی سے متعلق درخواست پارٹی سربراہ، اسپیکر کے حوالے کرے گا۔ اسپیکر دو دن کے اندر یہ درخواست چیف الیکشن کمشنر کو بھیج دے گا۔ چیف الیکشن کمشنر کو 30 دن کے اندر فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ نااہلی کی درخواست منظور کرے یا نہیں۔ اگر الیکشن کمیشن نااہلی کی توثیق کر دیتا ہے تو پھر متعلقہ رکن ایوان کا حصہ نہیں رہے گا۔ تاہم متعلقہ رکن کو 30 دن کے اندر الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل کا حق حاصل ہو گا۔ جبکہ عدالت عظمیٰ 90 روز کے اندر اس اپیل پر فیصلہ سنائے گی۔ ذرائع کے مطابق اس طویل پراسس کے علاوہ ایک نیا مسئلہ یہ پیدا ہو جائے گا کہ نااہل ارکان کے لئے 60 روز کے اندر ضمنی الیکشن کرانا ہوں گے۔
اس بارے میں جب سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’’ یہ ٹھیک ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لئے پیپلز پارٹی کے منحرف ارکان کے ووٹ کارآمد ہوں گے، یعنی وہ اکثریت کھونے پر اپنے عہدے پر نہیں رہ سکیں گے۔ باقی جہاں تک ارکان کی نااہلی کا تعلق ہے تو یہ عمل چلتا رہے گا۔ اس دوران تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے والی اپوزیشن کا نمائندہ موجودہ وزیر اعلیٰ کی جگہ لے لے گا۔ تاہم جب پراسس مکمل ہونے پر ارکان کو نااہل کیا جائے گا تو یہ نیا وزیر اعلیٰ بھی اکثریت کھو دے گا اور یوں اسے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینا ہو گا۔ سندھ اسمبلی کا ایوان 168 ارکان پر مشتمل ہے۔ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے 85 ووٹ درکار ہیں۔ اگر تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے اپنے نمبرز پورے کرنے کے لئے حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کے ارکان کو توڑا اور موجودہ وزیر اعلیٰ کو گھر بھیجا تو اس سے بدترین آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا یہ سارا معاملہ اتنا آسان نہیں، جتنا سمجھا جا رہا ہے‘‘۔
کنور دلشاد نے اس موقع پر یہ نشاندہی بھی کی کہ اس سارے عمل میں بلاول بھٹو زرداری کا کوئی کردار نہیں بنتا۔ کیونکہ پی پی کے تمام ارکان نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا ہے، اور اسی نام سے الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کرا رکھی ہے۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ بلاول بھٹو نہیں آصف علی زرداری ہیں۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد یا اعتماد کی تحریک کے حوالے سے پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے۔ آرٹیکل 136 (1) کے تحت ’’وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی قرارداد جسے صوبائی اسمبلی کی کل رکنیت کے کم از کم بیس فیصد نے پیش کیا ہو، صوبائی اسمبلی کی طرف سے منظور کی جا سکے گی۔ اگر اس قرارداد کو صوبائی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور کر لیا جائے، تو وزیر اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں رہے گا‘‘۔ اسی طرح پارٹی سے انحراف کی بنیاد پر نااہلیت کے حوالے سے آئین کا آرٹیکل 63 ، الف ( 1) کہتا ہے کہ ’’اگر کسی ایوان میں کسی تنہا سیاسی جماعت پر مشتمل پارلیمانی پارٹی کا کوئی رکن (الف) اپنی سیاسی جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہو جائے یا کسی دوسری پارٹی میں شامل ہو جائے یا (ب) اس پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جس سے اس کا تعلق ہو، جاری کردہ حسب ذیل سے متعلق کسی ہدایت کے برعکس ایوان میں ووٹ دے یا ووٹ دینے سے اجتناب کرے (اول) وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا انتخاب (دوئم) اعتماد یا عدم اعتماد کا ووٹ (سوئم) کسی مالی بل یا دستوری (ترمیمی بل) تو پارٹی کا سربراہ اعلان کر سکے گا کہ وہ اس کی سیاسی جماعت سے منحرف ہو گیا ہے، اور پارٹی کا سربراہ اعلان کی ایک نقل اسپیکر کو فراہم کرے گا، جو دو دن کے اندر یہ اعلان چیف الیکشن کمشنر کو بھیج دے گا۔ جبکہ پارٹی سربراہ اس اعلان کی ایک نقل متعلقہ رکن کو بھی بھیجے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ اعلان کرنے سے پہلے، پارٹی سربراہ مذکورہ رکن کو اس بارے میں اظہار وجوہ کا موقع فراہم کرے گا کہ کیوں نہ اس کے خلاف مذکورہ اعلان کر دیا جائے۔ اسپیکر کی جانب سے اعلان وصولی کے تیس دن کے اندر چیف الیکشن کمشنر اس اعلان کی توثیق کرے گا یا اس کے برخلاف فیصلہ سنائے گا۔ جب الیکشن کمیشن اعلان کی توثیق کر دے تو مذکورہ رکن ایوان کا حصہ نہیں رہے گا۔ اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ناراض کوئی فریق، تیس دن کے اندر، عدالت عظمیٰ میں اپیل داخل کرا سکے گا، جو اپیل داخل کرنے کی تاریخ سے 90 دنوں کے اندر اس معاملے کا فیصلہ کر سکے گی‘‘۔