آپ نے عطاء بن ابی رباحؒ کا نام سنا ہو گا۔ یہ کالے رنگ کے تھے، آنکھیں نیلی، چھوٹا سا قد، منحنی سا جسم، نہ دولت نہ کنبہ، قبیلہ یا بڑا خاندان، مگر علم کی وجہ سے ان کی شان یہ تھی کہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک حج کرنے کے لئے گیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے سوال کیا: مکہ کا سب سے بڑا عالم کون ہے؟ انہوں نے بتایا: عطاء بن ابی رباح۔
سب سے بڑا مفسر، محدث، مفتی مکہ میں کون ہے؟ سارے سوالوں کے جواب میں ایک ہی نام سامنے آیا: عطاء بن ابی رباح۔
سلیمان کے دل میں آیا کہ اتنے بڑے عالم سے ملنا چاہیے۔ کہنے لگا: چلو! مجھے عطائؒ کے پاس لے چلو۔ اس نے اپنے وزراء، امراء اور حاشیہ کو ساتھ لیا اور عطاء سے ملنے حرم شریف میں داخل ہوا۔ ان کی چارپائی حرم کے ایک کونے میں رکھی ہے۔ لوگ ان سے سوال و جواب کر رہے ہیں۔ خلیفہ آگے بڑھا۔ دیکھا ایک کالے رنگ کا شخص، سر کے بال اڑے ہوئے، نیلی آنکھیں، جسم پر معمولی کپڑے، درہم و دینار کا مالک بھی نہیں، مگر اس کی شہرت پورے جزیرہ عرب میں پھیلی ہوئی ہے۔
خلیفہ آگے بڑھ کر سلام کرتا ہے اور تعجب سے پوچھتا ہے: ارے! تم ہی وہ عطاء ہو، جس کی دور دور تک شہرت ہے۔ ہر جگہ لوگ تمہارا ذکرِ خیر کرتے ہیں؟
عطاءؒ نے بہت تواضع سے جواب دیا: جی ہاں لوگ ایسا ہی کہتے ہیں۔
خلیفہ کو معلوم ہے کہ اس عزت و شہرت کی وجہ صرف اور صرف علم ہے کہ اس علم کی بدولت رب تعالیٰ معمولی درجے کے لوگوں کو بلند ترین مقام عطا فرما دیتا ہے۔ پوچھا: تم نے اتنا زیادہ علم کیسے حاصل کیا؟
انہوں نے جواب دیا: ’’میں نے مسجد حرام میں30 سال تک اپنا بستر لگائے رکھا، اس دوران مَیں کبھی مکہ سے باہر نہیں گیا، علمائے کرام سے مسلسل علم حاصل کرتا رہا۔‘‘
سلیمان بن عبد الملک نے اپنے وزیروں مشیروں سے کہا: جائو حجاج میں اعلان کر دو کہ مناسک حج کے بارے میں اگر کوئی فتویٰ دے گا تو وہ صرف عطاء بن ابی رباحؒ ہوں گے۔
علم سے محبت، علم حاصل کرنے کا جنون انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے؟! مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے سلف صالحین کو حدیث سے کس طرح محبت تھی۔
ابو حاتم الرازی کے بارے میں سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ حدیث کا علم حاصل کرنے کے لئے پیدل سفر کرتے تھے۔ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے طلب حدیث کے لئے ایک ہزار فرسخ پیدل طے کیے۔ ایک فرسخ 5 کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے۔ گویا انہوں نے 5 ہزار کلومیٹر سفر پیدل کیا۔ یہ سفر سیر و سیاحت کے لئے نہیں، بلکہ علم حدیث سیکھنے کے لئے تھا۔ فرماتے ہیں: پھر میں نے گنتی چھوڑ دی۔ جی ہاں! وہ بحرین سے مصر گئے۔ مصر سے رملہ گئے۔ رملہ سے پیدل طرسوس گئے۔ بصرہ میں قیام کے دوران ان کے پاس پیسے ختم ہو گئے تو اپنے فالتو کپڑے فروخت کر دیئے۔ 2 دن بھوکے رہے۔ ان کے ایک دوست کو علم ہوا تو اس نے ان کی مدد کی۔
ابو العلاء الہمدانیؒ کہتے ہیں: میں علم کے حصول کے لئے بغداد گیا۔ پیسے پاس نہ تھے۔میں رات کو مسجد میں سو جاتا اور مکئی کے دانوں پر گزارہ کرتا تھا۔
عمر بن عبدالکریم الرواسیؒ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے 3 ہزار 600سے زائد مشائخ سے ملاقات کی۔ ان میں ہر ایک عالم سے کچھ نہ کچھ ضرور پڑھایا سیکھا۔ ایک سفر کے دوران شدید سردی کی وجہ سے ان کی بعض انگلیاں جھڑ گئیں۔ اتنے پیسے پاس نہ تھے کہ جسم کو گرم کرنے کے لئے وہ لکڑیاں یا کوئلے خرید سکتے۔
امام بخاریؒکے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ چاروں اطراف بسنے والے محدثین اور علماء کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے خراسان اور اس کے پہاڑوں کے بارے میں لکھا۔ عراق کے تمام شہروں،حجاز ،شام،مصر،بغداد کے سفر کیے اور وہاں کے حالات قلم بند کیے۔
ان علمائے کرام کی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج فرامین رسول کریمؐ اپنی اصل حالت میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ حق تعالیٰ ان تمام علمائے کرام کو امت محمدیہ کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭