خلیفہ منصور نے ایک دن منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھنا شروع کیا، لیکن وہ ابھی کلمہ شریف ہی پڑھنے پایا تھا کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا:
’’امیر المومنین! ذکر خدا کے ساتھ یہ بھی بتائو کہ ہو کون؟ منصور نے کہا: مرحبا، تم نے خوب کہا، لیکن پہلے ضروری تھا کہ میں خدا کا ذکر کر لیتا، خدا کا شکر کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں کہ جب ان سے کہا جائے خدا سے ڈرو تو وہ اور بھی زیادہ بے خوف ہو کر منہیات پر جسارت کرنے لگتے ہیں اور کہنے والے کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ پندو موعظت ہم ہی سے شروع ہوئی ہے اور ہم ہی سے نکلی ہے۔
(بنی ہاشم ہونے کی وجہ سے) خدا وندکریم نے تجھے اس قابل نہیں بنایا کہ تجھ پر سختیاں پڑیں اور تو صبر کر لے۔ یعنی تو وہ نہیں ہے تجھ پرالزام اور تہمتیں لگائی جائیں اور تجھ میں طاقت بھی بدلہ لینے کی ہو اور پھر تو صبر وتحمل سے کام لے تو اسی کو غنیمت سمجھ! کہ خطبہ کے درمیان تو نے بلا وجہ ٹوکا اور میں نے تیری جان بخشی کر دی۔ (تاریخ الخلفاء)
اس جملہ معترضہ کے بعد اس نے اپنی اصلی تقریر شروع کردی۔ گو سوال نامعقول تھا اور بلا سبب و بلاوجہ تھا، تاہم اس واقعہ سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص آزادانہ گفتگو کرسکتا تھا۔ نیز بادشاہ آزادانہ بات چیت سننے کا عادی تھا اور لوگوں کی زبانیں بند نہ تھیں۔
خلیفہ مہدی کی جھوٹے محدّث پر ناراضی
خلیفہ مہدی کے پاس ایک مرتبہ دس عالم آئے، انہی میں فرح بن فضالہ اور غیاث ابن ابراہیم بھی تھے۔ غیاث کو معلوم تھا کہ مہدی کو کبوتر بازی کا شوق ہے۔ مہدی نے غیاث سے کہا کوئی حدیث بیان کیجئے۔ غیاث نے کہا: فلاں شخص نے حضرت ابو ہریرہؓ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا کہ سبقت گھوڑوں میں مناسب ہے یا تیر اندازی میں یا پرندوں کے رکھنے میں۔
مہدی کو اس جھوٹے اور خاشامدی محدث پر غصہ آیا، لیکن باوجود غصہ کے دس 10 ہزار درہم دینے کا حکم دیا اور غیاث سے کہا:
’’باطن تمہارا جیسا کچھ ہو، اس کا علم نہیں، لیکن تمہاری باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تم سخت دروغ گو اور دھوکہ دینے والے اور مصنوعی حدیثیں بنانے والے ہو۔‘‘ ان کے جانے کے بعد حکم دیا کہ چونکہ اس شخص نے ایک جھوٹی حدیث بیان کر کے مجھے لہوو لعب کی طرف اور زیادہ مائل کرنا چاہا ہے، اس لئے کتوبر خانہ منہدم کر دیا جائے۔ ملازمین موقوف اور تمام کبوتر ذبح کر دیئے جائیں۔
٭٭٭٭٭