معارف و مسائل
روح المعانی میں ہے کہ مناسب یہ ہے کہ اس آیت میں الذین امنوا سے مراد وہ مومن لئے جائیں جو ایمان کامل رکھتے ہیں اور اطاعات کے پابند ہیں، ورنہ وہ مومن جو شہوات اور غفلت میں منہمک ہو، اس کو صدیق و شہید نہیں کہا جا سکتا۔
اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے، جس میں آنحضرتؐ نے فرمایا:لوگوں پر لعنت کرنے والے شہداء میں شامل نہ ہوں گے اور حضرت فاروق اعظمؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا کہ ’’ تمہیں کیا ہو گیا کہ تم دیکھتے ہو کہ کوئی آدمی لوگوں کی عزت و آبرو کو مجروح کرتا ہے اور تم اس کو نہ روکتے ہو ، نہ کوئی برا مانتے ہو۔‘‘ ان حضرات نے عرض کیا کہ ہم اس کی بدزبانی سے ڈرتے ہیں کہ ہم کچھ بولیں گے تو وہ ہماری بھی عزت و آبرو پر حملہ کرے گا، حضرت فاروق اعظمؓ نے فرمایا: ’’اگر یہ بات ہے تو تم لوگ شہداء نہیں ہو سکتے۔‘‘
ابن اثیر نے یہ روایت نقل کر کے اس کا مطلب یہ بتلایا کہ ایسی مداہنت کرنے والے ان شہداء میں شامل نہیں ہوں گے، جو قیامت کے روز انبیائؑ سابقین کی امتوں کے مقابلہ میں شہادت دیں گے۔ (روح المعانی )
تفسیر مظہری میں ہے کہ اس آیت میں الذین امنوا سے مراد صرف وہ حضرات ہیں جو آنحضرتؐ کے عہد مبارک میں ایمان لائے اور آپؐ کی صحبت سے مشرف ہوئے۔
اور آیت میں لفظ ہم الصدیقون جو کلمہ حصر ہے، یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ صدیقیت صحابہ کرامؓ میں منحصر ہے ، حضرت مجدد الف ثانیؒ نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ سب کے سب کمالات نبوت کے حامل تھے، جس شخص نے ایک مرتبہ رسول اقدسؐ کو ایمان کے ساتھ دیکھ لیا، وہ کمالات نبوت میں مستغرق ہو گیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭