جبلہ بن الایہم غسانی، شام کا مشہور رئیس بلکہ بادشاہ تھا اور مسلمان ہو گیا۔ کعبہ کے طواف میں اس کی چادر کا گوشہ ایک شخص کے پاؤں کے نیچے آ گیا۔ جبلہ نے اس شخص کے منہ پر تھپڑ کھینچ مارا۔ اس نے بھی برابر جواب دیا۔ جبلہ غصے سے بے تاب ہو گیا اور امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے پاس آیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کی شکایت سن کر کہا: ’’تم نے جو کچھ کیا اس کی سزا پائی‘‘ اس کو سخت حیرت ہوئی اور کہا کہ ’’ہم اس رتبہ کے لوگ ہیں کہ کوئی ہمارے آگے گستاخی سے پیش ہو تو قتل کا مستحق ہوتا ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ فرمایا: ’’جاہلیت میں ایسا ہی تھا، لیکن اسلام نے پست و بلند کو ایک کر دیا۔‘‘ اگر اسلام ایسا مذہب ہے، جس میں شریف و رذیل کی کچھ تمیز نہیں، تو میں اسلام سے باز آتا ہوں۔ غرض وہ چھپ کر قسطنطنیہ چلا گیا۔ لیکن حضرت عمرؓ نے اس کی خاطر سے قانون انصاف کو بدلنا گوارا نہیں کیا۔
ایک دفعہ سیدنا عمرؓ نے ملک کے عہدیداروں کو حج کے زمانے میں طلب کیا اور مجمع عام میں کھڑے ہو کر کہا کہ جس کو ان لوگوں سے شکایت ہو پیش کرے۔ اس مجمع میں سیدنا عمرو بن العاصؓ گورنر مصر اور بڑے بڑے مرتبہ کے حکام اور عمال موجود تھے۔ ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ فلاں عامل نے بے وجہ مجھ کو سو درے مارے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا اٹھ اور اپنا بدلہ لے۔ سیدنا عمرو بن العاصؓ نے کہا: امیر المومنین! اس طریق عمل سے تمام عمال بے دل ہو جائیں گے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’تاہم ایسا ضرور ہو گا‘‘ یہ کہہ کر پھر مستغیث کی طرف متوجہ ہوئے کہ ’’اپنا کام کر۔‘‘ آخر عمرو بن العاصؓ نے مستغیث کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ دو سو دینار لے لے اور اپنے دعویٰ سے باز آ جائے۔
ایک دفعہ سرداران قریش ان سے ملاقات کو آئے۔ اتفاق سے ان لوگوں سے پہلے صہیبؓ، بلالؓ، عمارؓ وغیرہ بھی ملاقات کے منتظر تھے۔ جن میں اکثر آزاد شدہ غلام تھے اور دنیاوی حیثیت سے معمولی درجہ کے لوگ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اول انہی لوگوں کو بلایا اور سرداران قریش باہر بیٹھے رہے۔ ابو سفیان جو زمانہ جاہلیت میں تمام قریش کے سردار تھے۔ ان کو یہ امر سخت ناگوار گزرا اور ساتھیوں سے خطاب کر کے کہا کہ ’’کیا خدا کی قدرت ہے۔ غلاموں کو دربار میں جانے کی اجازت ملتی ہے اور ہم لوگ باہر بیٹھے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
ابو سفیان کی یہ حسرت اگرچہ ان کے ہم عمروں کے مزاج کے مناسب تھی، تاہم ان میں کچھ حق شناس بھی تھے۔ ایک نے کہا ’’بھائیو سچ یہ ہے کہ ہم کو عمرؓ کی نہیں، بلکہ اپنی شکایت کرنی چاہیے۔ اسلام نے سب کو ایک آواز سے بلایا۔ لیکن جو اپنی شامت سے پیچھے پہنچے، وہ آج بھی پیچھے رہنے کے مستحق ہیں۔ (کتاب الخراج صفحہ 66)
٭٭٭٭٭