قبیلہ از دشنواہ میں ایک بااثر آدمی ضماد بن ثعلبہ تھے۔ حافظ ابن عبدالبرؒ، علامہ ابن اثیرؒ اور بعض دوسرے ارباب سیر کا بیان ہے کہ وہ زمانہ جاہلیت میں رسول اکرمؐ کے دوست تھے۔ ان کا پیشہ طبابت اور جھاڑ پھونک تھا۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ (بعثت کے ابتدائی زمانے میں) ضماد مکہ آئے تو یہاں کے چند احمقوں (مشرکوں) کو یہ کہتے سنا کہ محمد پر (خدا کی پناہ) جنون کا اثر ہے (یعنی وہ مجنون ہوگئے ہیں)
حافظ ابن حجرؒ نے ’’الاصابہ‘‘ میں حضرت ضمادؓ کا یہ بیان نقل کیا ہے: ’’میں عمرہ کے لئے مکہ آیا، ایک مجلس میں ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف بیٹھے تھے، میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ ابوجہل بولا، اس شخص (رسول اکرمؐ) نے ہماری قوم میں تفرقہ ڈال دیا، ہم سب کو احمق ٹھہرایا، ہمارے مرے ہوئوں کو گمراہ بتایا اور ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہا۔
امیہ نے کہا: اس کے مجنون ہونے میں کوئی شک نہیں۔ امیہ کی بات سن کر میرے دل میں خیال آیا کہ میں بھی تو آسیب (جنون) وغیرہ کا علاج کرتا ہوں۔ چنانچہ میں اس مجلس سے رسول اکرمؐ کی تلاش میں اٹھ کھڑا ہوا۔ باوجود سارا دن تلاش کرنے کے آپؐ مجھے نہ ملے۔ اگلے دن میں نے آپؐ کو مقام ابراہیمؑ میں نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ میں بیٹھ گیا۔ جب آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو میں آپؐ کے پاس بیٹھ گیا اور کہا: اے عبدالمطلب کے پوتے! میں ان ہوائوں (بھوت پریت) کا علاج کرتا ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو آپ کا بھی علاج کروں۔ آپ اپنی اس بیماری کو شدید نہ سمجھئے۔ آپ سے زیادہ سخت بیماروں کا میں نے علاج کیا ہے اور وہ اچھے ہوگئے۔ میں نے آپ کی قوم سے سنا ہے کہ آپ ان سب کو بیوقوف کہتے ہیں اور آپ نے ان میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ ان کے مُردوں کو گمراہ بتایا ہے اور ان کے معبودوں میں عیب نکالے ہیں۔ ایسی باتیں تو وہی کرسکتا ہے، جس پر جن بھوت وغیرہ کا اثر ہو۔ میری بات سن کر آپؐ نے خطبہ ماثورہ پڑھا۔
’’تمام تعریفیں خدا ہی کے لئے ہیں، ہم اسی کی حمد کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں، جس کو خدا ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جس کو وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں‘‘۔
میں نے اس سے پہلے ایسا کلام کبھی نہیں سنا تھا، میں نے آپؐ سے دوبارہ یہ خطبہ پڑھنے کی درخواست کی۔ آپؐ نے دوبارہ پڑھ دیا، پھر میں نے پوچھا: آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟
آپؐ نے فرمایا: ایک خدا پر جس کا کوئی شریک نہیں، ایمان لا، بت پرستی کا جوا اپنی گردن سے اتار پھینک اور اس بات کی شہادت دے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔
میں نے عرض کیا کہ اگر میں یہ سب باتیں مان لوں تو مجھے کیا ملے گا؟
آپؐ نے فرمایا: جنت۔
میں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں سوائے خدا کے کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ وحدہ لاشریک ہے اور میں نے بت پرستی کا جوا گردن سے اتار دیا اور میں گواہی دیتا ہوں بلاشبہ آپ خدا کے بندے اور رسول ہیں۔ اس کے بعد میں آپؐ کے ساتھ رہنے لگا اور میں نے قرآن مجید کی بہت سی سورتیں حفظ کر لیں پھر اپنی قوم کی طرف چلا آیا‘‘۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اکرمؐ نے حضرت علیؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر کسی طرف بھیجا۔ راستے میں ایک جگہ لشکر کے لوگوں نے بیس اونٹ پکڑ لیے۔ حضرت علیؓ کو معلوم ہوا کہ یہ اونٹ حضرت ضمادؓ کی قوم کے ہیں تو انہوں نے لشکریوں کو حکم دیا کہ اونٹ واپس کردو۔ چنانچہ تمام اونٹ واپس کردیئے گئے۔ (صحیح مسلم۔ اسد الغابہ۔ الاصابہ)
٭٭٭٭٭