لاکھوں احادیث کا یاد ہونا؟
منکرین حدیث کاکہنا ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ، امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کے متعلق کتابوں میں لکھا کہ انہوں نے بالترتیب ساڑھے سات لاکھ، چھ لاکھ اور تین لاکھ احادیث سے انتخاب کرکے ان سے اپنی اپنی کتابیں لکھی ہیں۔ اسی طرح حافظ ابوزرعہؒ کی بابت مشہور ہے کہ انہوں نے سات لاکھ احادیث یاد کی تھیں۔ امام بخاریؒ کا یہ بھی کہنا ہے کہ مجھے ایک لاکھ صحیح اور دو لاکھ غیر صحیح احادیث یاد ہیں، جبکہ تدریب الراوی جلد 1 صفحہ نمبر100 پر مرقوم ہے کہ صحیح احادیث کی تعداد پچاس ہزار ہے۔
اب کہنا یہ ہے کہ جب صحیح احادیث زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار ہیں تو پھر یہ ساڑھے سات لاکھ احادیث کس طرح بنیں؟ ہاں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے خلاف ایک عجمی سازش کے تحت یہ احادیث آئیں ہیں۔ نیز لاکھوں کے حساب سے احادیث کا یاد کرنا بھی ناقابل فہم بات ہے۔
اس اعتراض کا جواب:
دراصل یہ اعتراض محدثینؒ کی اصطلاح سے ناواقفیت کی بنا پر ہے۔ محدثین کے نزدیک ایک حدیث دو ٹکڑوں میں منقسم ہوتی ہے۔ (1) سند حدیث اور (2) متن حدیث۔ بسا اوقات حدیث کا متن ایک ہوتا ہے، لیکن اس کی سندیں متعدد ہوتی ہیں۔ عام آدمی اس کو ایک حدیث شمار کرتا ہے لیکن محدثین کو یہی حدیث جتنی سندوں کے ساتھ پہنچی ہو، اس ایک ہی روایت کو اتنی ہی حدیثیں شمار کرتے ہیں۔
چنانچہ علامہ ابن جوزیؒ کہتے ہیں: اس عدد سے مراد حدیثوں کے متون نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد طرق اور اسانید ہیں۔ اب آپ حضرات خود غور کریں کہ متون کے اعتبار سے اگر احادیث کی تعداد پچاس ہزار ہے تو جب یہی احادیث مختلف صحابہؓ اور تابعینؒ نے اپنے تلامذہ کو بیان کی ہوں اور پھر ان کے تلامذہ در تلامذہ نے روایت کی ہوں اور پھر ان حضرات میں سے ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ سند کا اعتبار کیا جائے تو کیا ان مختلف سندوں کے اعتبار سے ان احادیث کی تعداد لاکھوں تک نہیں پہنچ سکتی؟
یقینا لاکھوں تک یہی تعدادبڑھ سکتی ہے حتیٰ کہ مذکورہ تعداد سے بھی متجاوز ہو سکتی ہے۔ باقی اتنی احادیث کے یاد کرنے کا ناقابل فہم ہونا بھی صحیح نہیں ہے، کیو نکہ ہمارے دور کے لوگوں جیسے حافظے اس وقت کے لوگوں کے نہیں تھے، بلکہ ان کے حافظے ان دنوں ’’ضرب المثل‘‘ تھے۔ چنانچہ امام ابوزرعہؒ کے قول کو علامہ ابن حجرؒ تہذیب التہذیب ج7 صفحہ 33 پر نقل کرتے ہیں : ’’میرے گھر میں پچاس سال سے کچھ احادیث میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی پڑی ہیں، جس کا اس وقت سے پھر دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا، لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ کونسی کتاب، کونسے ورق، کونسے صفحہ اور کونسی لکیر میں ہیں۔‘‘
امام زہریؒ اور خلیفہ ہشام بن عبد الملک کا واقعہ سمیت کئی حیرت انگیز واقعات گزر چکے ہیں۔ یہ تو محدثین کے حافظہ کا حال تھا، لیکن اگر صحابہ کرامؓ کے حافظہ کی طرف دیکھا جائے تو ان حضرات کے حافظے محدثین کرامؒ کے حافظوں سے بھی زیادہ ’’ضرب المثل‘‘ تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ محبوب کی باتیں اور ادائیں تو ہر کس و ناکس کو ایک دفعہ سننے اور دیکھنے سے یاد ہوجاتی ہیں، چہ جائیکہ صحابہؓ اور محدثین کرامؒ کا عشق۔
ان حضرات کا اپنے محبوبؐ کی احادیث کے ساتھ جو عشق تھاوہ شنیدہ نہیں، دیدنی تھا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک، ایک حدیث کی خاطر پورے مہینے کی سفر کو طے کیا۔ ان اسفار میں انہوں نے جو مشقتیں جھیلیں، یہ ان حضرات ہی کا کام تھا۔ علاوہ ازیں ان دنوں علم حدیث میں مہارت حاصل کرنا لوگوں کی نظر وں میں بڑی عزت کا سبب ہوا کرتا تھا۔ اس لئے ان حضرات کا علم حدیث کے ساتھ بے حدشغف تھا، اس کے حصول میں وہ بے حد محنت اور بے انتہا کوشش سے کام لیتے تھے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭