حضرت فضیل کی خلیفہؒ سے ملاقات

ہارون رشید نے ایک مرتبہ اپنے وزیر فضل برمکی سے کہا کوئی کامل مرد ہو تو اس کا خیال رکھو۔ وزیر خلیفہ کو پہلے حضرت عبدالرزاق اصفہانی پھر سفیان بن عیینہ کے پاس لے گیا، لیکن خلیفہ کو دونوں سے تسلی خاطر نہ ہوئی، کیونکہ دونوں صاحبان سے رخصت ہوتے وقت جب دریافت کیا گیا کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائو۔
دونوں نے اپنے فرضے کا اظہار کیا۔ امیر المومنین کے حکم سے قرضہ تو ادا کردیا گیا۔ مگر ان کے تقدس کا امیر المومنین پر اثر نہ ہو سکا۔
آخر حضرت فضیل کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ فرمایا کون ہے؟ وزیر نے کہا امیر المومنین آئے ہیں۔ کہا یہاں امیر کا کیا کام! ان سے کہئے تشریف لے جائیں اور میرے مشاغل میں مخل نہ ہوں۔
غرض وہ زبردستی گھس آئے۔ خلیفہ نے کہا کوئی نصیحت فرمایئے۔ فرمایا جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تخت خلافت پر بیٹھے ہیں تو انہوں نے اپنے آپ کو بہت سی بلائوں (ذمہ داریوں) سے گھرا ہوا پایا۔
خلیفہ متاثر ہوا اور کہا کچھ اور ارشاد کیجئے۔
فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اس کے حضور میں جواب دہی کیلئے تیار رہو (جس طرح اوروں کو اپنی جواب دہی کیلئے تیار رکھتے ہو) قیامت کے دن تجھ سے ایک ایک آدمی کا حساب لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی بڑھیا کسی رات بھوکی سوئی ہوگی تو قیامت کے روز وہ بھی تیری دامن گیر ہوگی۔‘‘
خلیفہ یہ سن کر کانپ اٹھا اور اس کے آنسو نکل آئے۔ فضل برمکی نے کہا فضیل بن عیاض اب سلسلہ گفتگو بند کیجئے۔ آپ نے تو امیر المومنین کو مار ڈالا ہے۔
فرمایا: میں نے نہیں، بلکہ تم نے اور تم جیسے دوسرے لوگوں نے اس کو ہلاکت کے قریب پہنچا دیا ہے۔
خلیفہ نے کہا آپ کے سر پر قرضہ ہو تو فرمایئے، ادا کروں۔ فرمایا خداوند کریم کا قرض ہے یعنی مجھ سے صحیح طور سے اطاعت نہ ہو سکی۔ خلیفہ نے کہا کسی بندہ کا قرض پوچھتا ہوں۔ فرمایا الحمد للہ! اس طرف سے خدا کا شکر ہے۔
خلیفہ نے کہا، یہ ایک ہزار کی تھیلی ہے۔ میری والدہ کی میراث ہے اور خالص طیب ہے، اس کو قبول کیجئے۔
آپ نے فرمایا۔ افسوس میری تمام نصیحتوں نے تم کو کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور میرے ہی ساتھ یہ ظلم روا رکھا، اس کو دو جس کو ضرورت ہے اور دینا چاہتے ہو اس کو جس کو ضرورت نہیں۔
یہ کہہ کر آپ نے دروازہ بند کر لیا اور ہارون رشید اور اس کا وزیر واپس چلے گئے۔
حضرت فضیل بن عیاض ابتدا میں ڈاکوئوں اور رہزانوں کے سردار تھے۔ ان کے تائب ہونے کا واقعہ بھی بڑا حیرت انگیز و عبرت خیز ہے۔ ایک قافلہ کے ساتھ ایک قاری بھی تھا۔ جب قافلہ دن کو روانہ ہوتا تھا تو قاری بدرقہ کے اونٹ پر بیٹھ کر نہایت خوش الحانی سے قرآن کریم پڑھا کرتا تھا۔ جب قافلہ فضیل کے پاس سے گزرا، اس وقت قاری صاحب یہ آیت کریمہ پڑھ رہے تھے۔
ترجمہ: ’’کیا ایمان والوں کیلئے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی کیلئے گڑ گڑائیں اور عاجزی کریں۔‘‘
یہ سنتے ہی آپ کے قلب پر ایک چوٹ لگی اور بے قراری کے عالم میں اپنے خیمہ سے باہر نکل آئے اور ایک ایک کا حساب چکا دیا۔ تاریخ الخلفا میں لکھا ہے کہ ہارون رشید بہ نفس نفیس آپ کے مکان پر جایا کرتا تھا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment