جان رکھو کہ دنیا کی زندگانی یہی ہے کھیل اور تماشہ اور بناؤ اور بڑائیاں کرنی آپس میں اور بہتائیت ڈھونڈنی مال کی اور اولاد کی، جیسے حالت ایک مینہ کی، جو خوش لگا کسانوں کو اس کا سبزہ، پھر زور پر آتا ہے، پھر تو دیکھے زرد ہو گیا، پھر ہو جاتا ہے روندا ہوا گھاس اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور معافی بھی ہے خدا سے اور رضا مندی اور دنیا کی زندگانی تو یہی ہے مال دغا کا دوڑو اپنے رب کی معافی کی طرف کو اور بہشت کو جس کا پھیلاؤ ہے، جیسے پھیلاؤ آسمان اور زمین کا تیار رکھی ہے واسطے ان کے جو یقین لائے خدا پر اور اس کے رسولوں پر یہ فضل خدا کا ہے، دے اس کو جس کو چاہے اور خدا کا فضل بڑا ہے۔
خلاصہ تفسیر
تم خوب جان لو کہ (آخرت کے مقابلہ میں ) دنیوی حیات (ہرگز قابل اشتغال چیز نہیں کیونکہ ) محض لہو و لعب اور (ایک ظاہری) زینت اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنا (قوت و جمال اور دنیوی ہنر و کمال میں) اور اموال اور اولاد میں ایک کا دوسرے سے اپنے کو زیادہ بتلانا ہے (یعنی مقاصد دنیا کے یہ ہیں کہ بچپن میں لہو و لعب کا غلبہ رہتا ہے اور جوانی میں زینت و تفاخر کا اور بڑھاپے میں مال و دولت آل واولاد کو گنوانا اور یہ سب مقاصد فانی اور خوب و خیال محض ہیں جس کی مثال ایسی ہے) جیسے مینہ (برستا) ہے کہ اس کی پیداوار (کھیتی) کاشتکاروں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر وہ (کھیتی) خشک ہو جاتی ہے سو اس کو تو زرد دیکھتا ہے پھر وہ چورا چورا ہو جاتی ہے ( اسی طرح دنیا چند روزہ بہار ہے پھر زوال و اضمحلال ، یہ تو دنیا کی حالت ہوئی) اور آخرت (کی کیفیت یہ ہے کہ اس) میں (دو چیزیں ہیں ایک تو کفار کے لئے) عذاب شدید ہے اور (دوسری اہل ایمان کے لئے) خدا کی طرف سے مغفرت اور رضا مندی ہے ( اور یہ دونوں باقی ہیں ، پس آخرت تو باقی ہے) اور دنیوی زندگانی محض (فانی ہے ، جیسے فرض کرو کہ ایک) دھوکہ کا اسباب ہے (ومر تفسیرہ فی آل عمران قریباً من الاخیر، پس جب متاع دنیا فانی اور دولت آخرت باقی ہے جو ایمان کی بدولت نصیب ہوتی ہے تو تم کو چاہئے کہ) تم اپنے پروردگار کی مغفرت کی طرف دوڑو اور (نیز) ایسی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کے برابر ہے (یعنی اس سے کم کی نفی ہے ، زیادہ کی نفی نہیں اور) وہ ان لوگوں کے واسطے تیار کی گئی ہے جو خدا پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں (اور ) یہ (مغفرت و رضوان) خدا کا فضل ہے، وہ اپنا فضل جس کو چاہیں عنایت کریں اور خدا بڑے فضل والا ہے ( اس میں اشارہ ہے کہ اپنے اعمال پر کوئی مغرور نہ ہو اور اپنے اعمال پر استحقاق جنت کا مدعی نہ ہو ، یہ محض فضل ہے، جس کا مدار ہماری مشیت پر ہے ، مگر ہم نے اپنی رحمت سے ان عملوں کے کرنے والوں کے ساتھ مشیت متعلق کرلی، اگر ہم چاہتے تو مشیت نہ کرتے کہ القدرۃ تتعلق بالضدین) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭