جنگ قادسیہ کے بعد جب تمام قبائل عرب اور صحابہ کرامؓ کی تنخواہیں مقرر کی گئیں تو بڑے رشک و منافرت کا موقع پیش آیا۔ سرداران قریش اور معزز قبائل کے لوگ جو ہر موقع پر امتیاز کے خوگر تھے، بڑے دعوے کے ساتھ منتظر رہے کہ تنخواہ کے تقرر میں حفظ مراتب کا خیال کیا جائے گا اور فہرست میں ان کے نام سب سے پہلے نظر آئیں گے۔ لیکن حضرت عمرؓ نے ان کے تمام خیالات غلط کر دیئے۔ انہوں نے دولت و جاہ، زور قوت، ناموری و شہرت، اعزاز و امتیاز کی تمام خصوصیتوں کو مٹا کر صرف اسلامی خصوصیت قائم کی اور اسی اعتبار سے تنخواہ کم و بیش مقرر کیں۔
جو لوگ اول اسلام لائے تھے یا جہاد میں کارہائے نمایاں سر انجام دیئے تھے یا آنحضرتؐ کے ساتھ خصوصیت رکھتے تھے ان کو غیروں پر ترجیح دی۔ جو ان خصوصیتوں میں برابر درجے پر تھے، ان کی تنخواہیں برابر مقرر کیں۔ یہاں تک کہ غلام اور آقا میں کچھ فرق نہ رکھا۔ حالانکہ عرب میں غلام سے بڑھ کر کوئی گروہ خوار و ذلیل نہ تھا۔ اسی موقع پر سیدنا اسامہ بن زیدؓ کی تنخواہ جب اپنے بیٹے سے زیادہ مقرر کی تو انہوں نے عذر کیا کہ بخدا کسی موقع پر مجھ سے آگے نہیں رہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا، ہاں! لیکن رسول اقدسؐ اسامہؓ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔
اہل عرب کا شعار تھا کہ لڑائیوں میں فخریہ اپنے اپنے قبیلہ کی جے پکارا کرتے تھے۔ اس فخر کو مٹانے کے لئے تمام فوجی افسروں کو لکھ بھیجا کہ جو لوگ ایسا کریں، ان کو سخت سزا دی جائے۔
ایک دفعہ ایک شخص نے جو ضبہ کے قبیلہ سے تھا، لڑائی میں یا آل ضبہ کا نعرہ لگایا۔ حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی تو سال بھر کے لئے اس کی تنخواہ بند کر دی۔ اس قسم کے اور بہت سے واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں (فتوح البلدان صفحہ 456)
اسی اصول مساوات کی بنا پر وہ کسی شخص کے لئے کسی قسم کا امتیاز پسند نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے مصر کی جامع مسجد میں منبر بنایا تو لکھ بھیجا کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اور مسلمان نیچے بیٹھے ہوں اور تم اوپر بیٹھو۔ عمال کو ہمیشہ تاکیدی احکام بھیجتے رہتے تھے کہ کسی طرح کا امتیاز اور نمود اختیار نہ کریں۔
ایک دفعہ سیدنا ابی بن کعبؓ سے سیدنا عمرؓ کا کسی بات پر نزاع ہوا۔ سیدنا زید بن ثابتؓ کے ہاں مقدمہ پیش ہوا۔ حضرت عمرؓ ان کے پاس گئے تو انہوں نے تعظیم کے لئے جگہ خالی کر دی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ یہ پہلی نا انصافی ہے جو تم نے اس مقدمہ میں کی۔ یہ کہہ کر اپنے فریق کے برابر بیٹھ گئے۔
یہی بھید تھا کہ طرز معاشرت نہایت سادہ اور غریبانہ رکھی تھی۔ سفر و حضر میں جلوت و خلوت میں مکان اور بازار میں کوئی شخص ان کو کسی علامت سے پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ خلیفہ وقت ہیں۔ قیصر و کسریٰ کے ایلچی مسجد نبویؐ میں آ کر ڈھونڈتے رہے کہ شہنشاہ اسلام کہاں ہیں۔ حالانکہ شہنشاہ وہیں پیوند لگے کپڑے پہنے کسی ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ ان کے عمال ان کو اسی برابر کے القاب سے خط لکھتے، جس طرح وہ عمال کو لکھا کرتے تھے۔
اس اصول انصاف سے اگرچہ کچھ خاص آدمی جن کے ادعائے شان کو صدمہ پہنچتا تھا۔ دل میں مکدر ہوتے تھے۔ لیکن چونکہ یہ عرب کا اصلی مزاج تھا۔ اس لئے عام ملک پر اس کا نہایت عمدہ اثر ہوا اور تھوڑے ہی دنوں میں تمام عرب گرویدہ ہو گیا۔ خواص میں بھی جو حق شناس تھے وہ روز بروز معترف ہوتے گئے اور جو بالکل خود پرست تھے وہ بھی میلان عام کے مقابلے میں اپنی خود رائی کے اظہار کی جرات نہ کر سکے۔
اس اصول کے عمل میں لانے سے بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قبائل عرب میں جو انہی بے ہودہ مفاخر کی بنا پر آپس میں لڑتے رہتے تھے اور جس کی وجہ سے عرب کا سارا خطہ ایک میدان کارزار بن گیا تھا، ان کی باہمی رقابت اور مفاخرت کا زور بالکل گھٹ گیا۔
٭٭٭٭٭