ماہنامہ ’’نقاد‘‘ اردو ادب میں رومان پروری کا دبستان ثابت ہوا

ترتیب و پیشکش
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
بیسویں صدی عیسوی اپنی دسویں سالگرہ منا کر دوسری دہائی میں داخل ہو رہی تھی۔ لکھنؤ، رام پور، دلی، آگرہ، لاہور، حیدرآباد اور بھوپال میں اردو صحافت اور ادب کے مرکز قائم تھے۔ اردو کے اکثر ادیب و شاعر اور صحافی مختلف گوشوں سے سمٹ کر ان مقامات پر جمع ہوگئے تھے۔ ان میں بوڑھے بھی تھے، ادھیڑ بھی اور ایسے بھی جن کی چڑھتی جوانیاں تھیں۔ پرانوں میں ڈپٹی نذیر احمد، اکبر الہ آبادی، عبدالحلیم شرر، مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حالی ابھی حیات تھے۔ علامہ اقبال، چکبست، مولانا حسرت موہانی، فانی بدایونی، اصغر گونڈوی، طباطبائی اور شوق قدوائی کی شاعری کا سورج تیزی سے بلندی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جوش ملیح آبادی، سیماب، جگر اور آرزو لکھنوی کی ابھرتی ہوئی آوازیں بھی لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے لگی تھیں۔ طوطا مینا، لیلی مجنوں، گل بکاؤلی اور طلسم ہوش ربا کی داستانوں کا دور ختم ہوگیا تھا۔ ان کی جگہ مغرب سے آئے ہوئے مختصر افسانے نے لے لی تھی۔ منشی پریم چند، سجاد حیدر یلدرم، سلطان حیدر جوش اور نیاز فتح پوری اس نئی صنف کو آگے بڑھا رہے تھے۔ صحافت میں مولانا ظفر علی خان، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا محمد علی جوہر کا طوطی بول رہا تھا۔ پاک و ہند کے ہر چھوٹے بڑے شہر سے معیاری اخبار اور ادبی رسالے نکل رہے تھے۔ روزناموں میں زمیندار اور ہفت روزہ پرچوں میں الہلال دھوم مچائے ہوئے تھے۔ ماہنامہ ادبی پرچوں میں زمانہ، مخزن، نظام المشائخ، ادیب، تمدن، صلائے عام، دلگداز، الناصر اور العصر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ لکھنے کو ناول، افسانہ، تنقید، تحقیق، علمی مضامین اور مذہبی مقالات، سبھی لکھے جارہے تھے۔ لیکن ہر قسم کی تحریر کہیں عشق حقیقی کے پردے میں اور کہیں مجاز کے رنگ میں رومان پرور انشا پردازی میں دبی ہوئی تھی۔ اس رومان پرور انشا پردازی کا دوسرا نام ’’انشائے لطیف‘‘ یا ’’شعر منشور‘‘ تھا۔ مہدی افادی، ابوالکلام آزاد، یلدرم، خلیقی، میر ناصر علی، نیاز فتح پوری اور دلگیر اکبر آبادی وغیرہ اس قسم کی نثر کے علمبردار تھے۔ دراصل ان ہی کی بدولت رومان نگاری نے ایک مستقل اور مقبول رجحان کی حیثیت اختیار کرلی تھی اور زبان و ادب کے قاری کو اس کا ایسا چٹخارہ لگ گیا تھا کہ نثر ہو یا نظم، اس رنگ کے بغیر مقبول نہ ہوتی تھی۔ اس رومان انگیز ادبی فضا میں اردو کے ایک ممتاز انشا پرداز شاہ نظام الدین دلگیر نے بھی آگرہ سے ’’نقاد‘‘ نام کا ایک ماہنامہ نکالا۔
نقاد کا پہلا پرچہ جنوری 1913ء میں بڑی آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے فضائے ادب پر چھا گیا۔ مولانا شبلی، مہدی افادی، اکبر الہ آبادی، شوق قدوائی، مولانا حسرت موہانی، ابو الکلام آزاد، ریاض خیر آبادی، مولانا حامد حسن قادری، نظم طباطبائی، سبھی اس کی محفل شعر و ادب میں شریک ہوگئے۔ ہر چند کہ نقاد میں زبان و ادب کے ساتھ ساتھ دوسرے علم و فنون پر بھی تنقیدی و تحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے۔ لیکن اس کے لکھنے والوں کا حلقہ کچھ ایسا تھا کہ یہ رسالہ بہت جلد اردو میں رومانوی تحریروں کا دلکش مرقع اور انشائے لطیف کی تحریک کا نمائندہ بن گیا۔ بات یہ تھی کہ اس رنگ کے بڑے انشا پرداز مثلاً مہدی افادی، نیاز فتح پوری، خلیقی، ضیا عباس ہاشمی اور خود نقاد کے مدیر دلگیر اکبر آبادی جن کی نثر رومان کا جادو جگاتی تھی، سب کے سب حسن و عشق یا جمالیات کے سلسلے میں سقراط کے ایک شاگرد اور مشہور یونانی مفکر زینون کے فلسفہ حسن و عشق سے متاثر تھے۔ اس فلسفے میں حسن و عشق اور عورت ایک ہی چیز کے مختلف نام تھے اور اسی کو اردو کے یہ رومان نگار اپنے فکر و خیال کا محور بنائے ہوئے تھے۔ چنانچہ نقاد کے پہلے ہی پرچے میں مہدی افادی کا مضمون ’’فلسفہ حسن و عشق‘‘ شائع ہوا۔ اس فلسفے کو سمجھنے کے لئے اس کی چند سطریں دیکھتے چلئے:
’’عورت کیا ہے۔ دنیا میں کیوں آئی؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ وہ محبت کی چیز ہے اور وہ محض اسی لئے آئی ہے۔ محبت ایک مقناطیسی شے ہے۔ عورت بغیر چاہنے والے کے رہ نہیں سکتی۔
عورت کتنی ہی پاکیزہ وش کیوں نہ ہو، اس خیال سے خالی نہیں ہوتی کہ کوئی اس کی کافر ادائی کا شیدائی ہو۔ اس کی فتوحات اس کا سرمایہ نشاط ہیں، جن سے اس کے دل کو راحت ملتی ہے اور جن سے وہ جیتے جی کبھی دست بردار نہیں ہو سکتی۔ وہ وار کرکے رہے گی، کیونکہ یہ اس کی فطرت میں داخل ہے۔ شانہ سے آنچل خود نہ گرائے، لیکن اگر اتفاق سے گر جائے تو وہ دل میں خوش ہوگی۔
آہ عورت تو فسانہ زندگی ہے، تو جس طرح ایک جھونپڑے کو اپنی صاف شفاف ہستی سے شیش محل بنا سکتی ہے۔ بڑے بڑے ایوان عیش کی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک تیری موجودگی کے آثار اس میں نہ پائے جائیں‘‘۔
اردو نثر نگاری کا یہ رنگ اس زمانے میں حد درجہ مقبول تھا۔ نوجوان لکھنے پڑھنے والے تو اس پر جان چھڑکتے تھے۔ نقاد کے مدیر دلگیر کی طبیعت کو بھی اس رنگ سے خاص مناسبت تھی اور وہ بھی اسی رنگ میں لکھتے تھے۔ نثر ہو یا نظم، دونوں میں تخیل کی جولانیاں حد سے بڑھی ہوئی ہوتی تھیں اور حقیقی دنیا کے مقابلے میں خیالی دنیا زیادہ کیف پرور نظر آتی تھی۔ دلگیر کے مضمون کا ایک ٹکڑا دیکھئے، جو ’’تصور جاناں‘‘ کے عنوان سے فروری 1913ء کے نقاد میں شائع ہوا۔
’’سنتے ہیں عاشق نامراد فرہاد کو جو لطف کوہ بے ستون میں اکیلے بیٹھ کر شیریں کے یاد کرنے اور شیریں کے خیالی پیکر سے گفتگو کرنے میں آتا ہے، کبھی خود شیریں کی صحبت میں نہ آیا۔ ایسے ہی ہم کو بھی دلربا صورتوں سے لگاؤ ہے۔ ان کے تصور کو ہر وقت تازہ رکھنے میں جو مزہ آتا ہے، خود ان سے مل کر نہیں آتا‘‘۔
مضمون کے اختتام پر ملٹن کا یہ قول درج ہے:
’’اے عورت تو مخلوق کا سب سے بہتر نمونہ ہے۔ تو خدا کی انتہائی اور سب سے اعلیٰ مخلوق ہے۔ تجھ میں یعنی تیری ہستی میں سب اچھی چیزیں جو خیال اور نظر میں آسکتی تھیں، بدرجہ کمال موجود ہیں۔ تو پاک ہے تو شان عرفان رکھتی ہے۔ تو نرم اور خلیق ہے، تو بہت مرغوب طبع ہے اور تو بہترین کائنات ہے‘‘۔
اس سلسلے میں خلیقی دہلوی کے ایک مضمون کا اقتباس بھی بطور نمونہ دیکھتے ہیں:
’’میری محبت کی نسبت انہیں اب کوئی حسن ظن نہیں رہا، نہ سہی۔ یہ میرا مقدر، میرے واسطے ان کی قلب میں اب کوئی گنجائش نہیں رہی نہ سہی، یہ میری تقدیر۔ مگر جب الزامات کو میرے ذمہ تعین کرلینے کی بنا پر وہ مجھ سے رنجیدہ ہوئے ہیں، جن تہمتوں کی مجھ سے روٹھ کر انہوں نے عملاً تصدیق کردی، کاش، ان سے مجھ کو آگاہ کیا جاتا۔ مجھے برات پیش کرنے کا موقع، مجھے عذر گناہ کے لئے فرصت عطا کی جائے۔ میں سچ عرض کرتا ہوں، میں دربار محبت میں شرمندہ عمل نہیں۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ محبت کے خلاف میرے دل میں کبھی کوئی مذموم تحریک پیدا نہیں ہوئی۔ میں نے ہر دعوت آزمائش کو لبیک کہا۔ میں نے تمام احکامات کی غلامانہ اطاعت کی۔ میں نے خدا کی قسم دل میں کبھی معصیت کی پرورش نہیں کی۔ دیکھ لینا تم اپنے عملی وہم سے شرمندہ ہوگے اور افسوس کہو گے آہ مجھے معلوم نہیں، کیوں ان کی محبت شک و شبہ میں بدل گئی‘‘۔
ضیائے عباس ہاشمی صاحب کے انداز انشا پردازی اور تصویر خیالی کی بھی ایک جھلک دیکھتے چلئے۔ ’’میں کیا کہوں‘‘ کے عنوان سے فروری 1913ء کے چرچے میں لکھتے ہیں:
’’میں ایک مجسم خیال ہوں۔ میں ایک فرضی تصویر ہوں، میں عکس ہوں کسی کا۔ خدا معلوم کس کا۔ میں یہ کچھ بھی نہیں۔ میں خانہ معشوق کی دیوار پر ایک قد آدم آئنہ ہوں۔ مجھ میں یار اور اغیار دونوں کی صورتیں عکس فگن ہیں۔ چونکہ میری ابتدا عشق اور خواہش کے ضمیر سے ہے۔ اس لئے میں خواہشوں کا ایک مجموعہ ہوں۔ بیاض عشق کا مرقع ہوں۔ کتاب محبت کا ایک ورق ہوں۔ ورق کی طرح مجھے بھی نہیں معلوم مجھ میں کیا لکھا ہے اور یہ بھی خبر نہیں کہ مجھے کون پڑھے گا‘‘۔
لیکن اس قسم کے نوجوان انشا پردازوں کے امام حقیقتاً نیاز فتح پوری تھے۔ اس وقت ان کا قیام دلی میں تھا اور ان کے قلم کی جولانیاں اردو نثر میں غضب کا رنگ و نور بکھیر رہی تھیں۔ یونانیوں کے فلسفہ حسن و عشق کا انہوں نے گہرا مطالعہ کیا تھا اور یورپ کے جمال پرست انشا نگاروں سے بھی وہ بہت متاثر تھے۔ طبعاً بھی حد درجہ رومان پسند واقع ہوئے تھے۔ اور جیسا کہ خود انہوں نے کئی جگہ اس کا اظہار کیا ہے۔ عورت ان کی کمزوری تھی، لیکن یہی کمزوری ان کی تحریر کا حسن و زیور بن گئی تھی۔ عورت اور اس کے حسن و جمال پر انہوں نے افسانے کی شکل میں نقاد میں مسلسل لکھا اور ایسی جادو اثری کے ساتھ کہ نوجوان طبقے کا ہر فرد، عورت ہو یا مرد، ان کی تحریروں پر ریجھ گیا۔ چنانچہ ان کے وہ رومانی افسانے جو تخیل کی رنگینی میں ڈوبے ہوئے ہیں، پہلے پہل نقاد ہی میں شائع ہوئے۔ ان افسانوں میں عشق و حسن کے جن فلسفے کو انہوں نے موضوع بنا رکھا تھا، اس میں عورت کا مقام بہت بلند ہے۔ اس بلندی کا ذکر ایک جگہ نہیں، بلکہ جگہ جگہ ان کے افسانوں میں ملتا ہے۔ بطور نمونہ چند ٹکڑے دیکھئے:
’’عورت ایک لذت ہے مجسم ایک تسکین ہے مشکّل ایک سحر ہے مرئی ایک نور ہے مادی‘‘۔
’’ایک حسین عورت کی جو برکت ہے وہ ایک لطیف موسیقی ہے۔ حسن کا ساز نسائیت اور صرف نسائیت ہے۔ وہ ہاتھ ہلاتی ہے تو گویا ہوا میں نقش ترنم بنا دیتی ہے۔ وہ چلتی ہے اور اپنے پیروں سے زمین پر نشان موسیقی چھوڑ جاتی ہے‘‘۔
’’عورت کائنات کی ساری حسین چیزوں کا نچوڑ ہے اور اس کے بغیر زندگی بے کیف اور بے روح ہے‘‘۔
’’عورت ایک روشنی ہے جسے ہم چھو سکتے ہیں۔ ایک نکہت ہے جس سے ہم گفتگو کر سکتے ہیں۔ وہ ایک شیرینی ہے جو ہاتھ سے چکھی جاسکتی ہے۔ وہ ایک موسیقی ہے جو آنکھوں سے سنی جاسکتی ہے‘‘۔’’ محبت ایک قسم کی نکہت ہے جو روح کی شگفتگی سے پیدا ہوتی ہے‘‘۔
یہ تو عورت اور محبت کے متعلق نیاز فتح پوری کے رومانی خیالات ہیں۔ لیکن اگر عورت فی الوقت ان کے سامنے آ جائے تو ان کے دل پر کیا گزر جاتی تھی اور وہ اس کی تصویر کس طرح کھینچے تھے؟ اس کی بھی ایک آدھ مثال دیکھتے چلئے۔ اجے گڑھ کی راجپوت لڑکیوں کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ایک بات اور ہے۔ کان میں کہنے کی تھی، مگر خیر سن لو۔ حزیں کو بنارس میں ہر برہمن لچھمن و رام نظر آتا تھا۔ لیکن یہاں ہر قدم پر سیتا و رادھا کا سامنا ہے۔ راجپوتوں کی لڑکیاں ہیں، بلند و بالا، صحیح و توانا، تیوریاں چڑھی، گردنیں تنی، آنکھوں میں تیر، مانگوں میں عبیر، ابرو میں خنجر، بالوں میں عنبر، ہاتھوں میں مہندی، ماتھے پر بیندی۔ کیا پوچھتے ہو کیا عالم ہے ‘‘۔
’’چار بجے کا وقت ہے، گہرا ابر محیط ہے۔ پہاڑی کی خشک ہوائیں، جسم میں سردی، لیکن دماغ میں شراب کی سی گرمی پیدا کر رہی ہیں کہ دفعتاً، بنگلہ سے باہر چہل پہل سی معلوم ہوئی۔ میں باہر نکلتا ہوں، معلوم نہیں غالب کا نگار آتشیں سر کھلا کیا تھا۔ یہاں تو ایک سمٹی ہوئی روشنی تھی، پیکر انسان میں۔ ایک قید کی ہوئی بجلی تھی عالم آب و گل میں، آنکھیں یکسر سحر بابل، لب ہمہ خون صد میخانہ اور اب پوچھئے کہ سن کیا تھا۔ بس یوں سمجھئے کہ جوانی کانٹے پر تل رہی تھی‘‘۔
’’وہ ہلکی ہلکی ریشم کی ساریاں اور ان ساریوں کے آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے زر کے پلو، وہ صدف آسا کانوں میں رنگین رخساروں سے چھو کر کانپ کانپ اٹھنے والے آویزاں کے درخشاں و تابندہ الماس۔ وہ پیشانیوں کی محدود و مختصر فشائیں، ناقابل شمار ادائوں سے گیسو کی آرائش اور ان آرائشوں کی مبہوت و دیوانہ بنا دینے والی نگہت باریاں … یہ معلوم ہوتا تھا کہ آج یہ قلعہ زمین پر لگا کر اڑ جائے گا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment