ایس اے اعظمی
عالمی جرید ے’’ڈرائیو‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ چین کے نئے خلائی مشن سے امریکہ کو سخت تشویش ہے۔ واضح رہے کہ چین چاند کے تاریک حصے میں سائنسی مشن بھیجنے والا پہلا ملک بن چکا ہے۔ ادھر امریکی حکام نے خدشات ظاہر کئے ہیں کہ چینی مشن صرف سائنسی نہیں، بلکہ عسکری مقاصد کیلئے بھی ہے۔ آسٹریلین تھنک ٹینک اسٹرٹیجک پالیسی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر میلکم ڈیوس نے بتایا ہے کہ چینی حکومت اس مشن کو عسکری مقاصد کیلئے بھی لازمی استعمال کرنا چاہے گی۔ یو ایس انٹیلی جنس کے سابق اعلیٰ عہدیدار جیف گوسیل کا کہنا ہے کہ چین کا نیا خلائی مشن امریکا کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیونکہ ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ چاند کے تاریک حصے پر بھیجا جانیوالا چینی خلائی جہاز ایسے آلات اور اجزا لے گیا ہے جن کے ذریعے اینٹی سیٹلائٹس لیزر گائیڈڈ ہتھیار نصب کئے جاسکیں گے۔ اس سے مستقبل میں امریکی اور عالمی خلائی مشن اور اسپیس شپس سمیت سیٹلائٹس کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے امریکی حکام کو چینی خلائی مشن سے خبردار رہنے اور اس کا تدارک کرنے کی تجاویز بھی دی ہیں۔ جیف گوسیل کا مزید کہنا تھا کہ چینی دفاعی ماہرین ایسے ہتھیار خلا میں بھیج سکتے ہیں جو خاموشی سے اپنے اہداف کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ امریکہ کو ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ چینی خلائی مشن کے حوالے سے عالمی جریدے ’’اسپیس‘‘ نے بتایا ہے اگرچہ عالمی معاہدوں کے تحت خلا میں ایٹمی ہتھیار اور میزائل نصب کرنے پر پابندی ہے، تاہم چینی عسکری ماہرین ’’ڈوئل ویپن سسٹم‘‘ نصب کرکے خلا کو میدان جنگ بنا سکتے ہیں۔ اس طرح چین، امریکہ اور روسی سمیت دیگر حریف ممالک کے خلائی جہازوں اور سیٹلائٹس کو منٹوں میں تباہ کرسکتا ہے اور زمین پر جاری پروگرامز کو بھی ہیک کرسکتا ہے۔ دوسری جانب چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن کا کہنا ہے کہ ان کا خلائی جہاز ’’چینگ فور‘‘ کو جدید ترین آلات اور کیمروں سے لیس کرکے ’’وون کارمان اسپیس سینٹر‘‘ سے خلا میں بھیجا گیا جو کامیابی سے چاند کے تاریک حصہ پر اترا چکا ہے۔ چینگ فور نے ویڈیوز اور تصاویر بھی بھیجنا شروع کردی ہیں۔ چینی خلائی جہاز تیار کرنے والے اسپیس انجینئر وو ویرن نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا تیار کردہ اسپیس مشن جدید ترین آلات اور سینسرز سمیت الیکٹرو آپٹیکل سسٹم اور گرائونڈ پینی ٹریٹنگ ریڈارز سے لیس ہے اور متعدد اقسام کے مشن مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ چاند کی سطح پر 28 چینی یونی ورسٹیوں کی تحقیق کا عمل بھی مکمل کیا جارہا ہے۔ ان یونی ورسٹیوں نے خاص قسم کے شیشوں والے ایئر ٹائٹ کنٹینرز اور برتنوں میں مختلف اقسام کی دالوں اور سبزیوں بیجوں کو اُگانے کیلئے بھیجا ہے تاکہ مستقبل میں چاند کی سطح پر انسانوں کی رہائش کیلئے مناسب حالات کی تحقیق بھی کی جائے۔ رپورٹ کے مطابق مذکورہ کنٹینرز میں کئی اقسام کے ریشم کے کیڑوں کو بھی بھیجا گیا ہے تاکہ معلومات حاصل کی جائیں کہ یہ کیڑے چاند پر ایک مصنوعی ماحول میں کب تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ چینی میڈیا کا اسپیس مشن کے حوالے سے کہنا ہے کہ مشن کا مقصد جیو فزکس اورتابکار اثرات کا جائزہ لینا اور ان نمونوں کو چینی اسپیس سینٹر پر بھیجنا ہے۔ چینی ادارے لیونار ایکس پلوریشن کے ڈائریکٹر تونگ جی لیو نے بتایا ہے کہ چینگ فور مشن کے تحت اس بات کی بھی تحقیق کی جائے گی کہ چاند کی سطح پر الیکٹرو میگنیٹک شعائیں کوئی اثرات مرتب کرتی ہیں یا نہیں؟ اس سلسلہ میں مزید معلومات حاصل کی جارہی ہیں۔ مشن کی مدد سے کوسموس کے اطراف اور گہرائی میں تمام قسم کی آوازیں اور لہروں کی مانیٹرنگ بھی کی جائے گی جس سے چاند پر منرلز اور کیمیائی مواد کی موجودگی اور ان کے تجزیہ میں مدد ملے گی۔ ادھر چینی ماہرین اگلا خلائی مشن بھی ترتیب دے رہے ہیں۔ اس خلائی جہاز کا نام ’’چینگ فائیو‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس خلائی جہاز کی خاصیت ہوگی کہ عملے سمیت چاند پر جاکر واپس بھی آسکے گا۔
٭٭٭٭٭