نمائندہ امت
خیبرپختون میں تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی کے کئی رہنمائوں کیخلاف نیب تحقیقات کا امکان بڑھ گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت نے صوبائی احتساب کمیشن بناکر نیب کا راستہ روک دیا تھا۔ تاہم اب صوبائی احتساب کمیشن کے خاتمے کے بعد اے این پی اور پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں ہونے والی کرپشن کے خلاف نیب تحقیقات شروع کر سکتا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی کی جانب سے تحریک انصاف حکومت پر شدید تنقید کے بعد صوبائی حکومت نے پرانے مقدمات دوبارہ کھولنے کے بارے میں غور شروع کر دیا ہے۔ تاہم بعض ذرائع نے اسفندیار ولی کی حکومت پر تنقید کو اے این پی کی کم ہوتی مقبولیت کو سہارا دینے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مردان ضلع کی نظامت سے محرومی کے بعد اسفندیار ولی کو کارکنوں کے شدید ردعمل کا بھی سامنا ہے، جن کا کہنا ہے کہ اسفندیار ولی نے پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت نہیں کی، اور جس کی وجہ سے اے این پی کے کئی رہنما پشتون تحفظ مومنٹ کے ساتھ مل گئے۔ ان میں بشریٰ گوہر، جمیلہ گیلانی، افراسیاب خٹک، ثنا اعجاز، گلالئی اسماعیل، محسن داوڑ، علی وزیر اور ڈاکٹر سید عالم شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق اے این پی دور حکومت کے معاملات بھی کھلنے والے ہیں۔ تحریک انصاف حکومت کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اے این پی حکومت کے آخری دو برسوں کا آڈٹ شروع کردیا ہے، جس میں گندم کی خریداری اور اسکولوں کو فرنیچر فراہم کرنے کے معاملات میں گھپلے سامنے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ اے این پی دور میں سیلاب زدگان کیلئے آنے والی امداد میں خوردبرد کی تحقیقات بھی شروع ہونے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسفندیار ولی کے حالیہ تندوتیز بیانات کی بنیادی وجہ پارٹی کی رکنیت سازی مہم میں کارکنوں اور عوام کی عدم دلچسپی ہے۔ جبکہ حالیہ بلدیاتی ضمنی الیکشن میں اے این پی کو اپنے گڑھ مردان اور چارسدہ میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ جماعت اسلامی لوئر دیر میں کامیاب ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اسفندیار ولی قومی سیاست میں خود کو دوبارہ سرگرم کرنے کیلئے ایسے معاملات زیر بحث لا رہے ہیں کہ جن کا خیبرپختون کے عوا م کو کوئی فائدہ نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ممکنہ اٹھارویں ترمیم میں خیبرپختون کے نام کو نہ چھیڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس سے اسفندیار ولی کی سیاست ختم ہو رہی ہے۔ جبکہ حکومت کالا باغ ڈیم کے بجائے مہمند ڈیم بنا رہی ہے اور دیامر بھاشا ڈیم کی زمین کی خریداری کیلئے بھی اقدامات شروع کر دیئے گئے ہیں، جس سے کالا باغ ڈیم پر اے این پی کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ دوسری جانب پی ٹی ایم نے بھی عوامی نیشنل پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن اے این پی قیادت نہ تو کھل کر پی ٹی ایم کی حمایت کر سکتی ہے اور نہ ہی مخالفت۔ تاہم پی ٹی ایم کا ساتھ نہ دینے پر اے این پی کو جن مشکلات کا سامنا ہے، اس کا اظہار اسفندیار ولی کی پریس کانفرنس میں صاف ظاہر ہورہا تھا۔ ماضی میں اے این پی حکومتوں کو گرانے میں شامل رہی، لیکن جب اس کو صوبے میں اقتدار ملا تو وہ اپنے منشور پر عمل کرنے میں ناکام رہی۔ خیبرپختون حکومت کے وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے اسفندیار ولی کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی کو ایزی لوڈ اور ایس ایم ایس کا جواب دینا ہوگا۔ صوبائی حکومت ماضی کی کرپشن کے معاملات کی چھان بین کر رہی ہے، جہاں پر بھی مسائل کی نشاندہی ہوئی، وہ معاملہ نیب کے حوالے کردیا جائے گا۔ شوکت یوسف زئی کا مزید کہنا تھا کہ اسفندیار ولی سندھ کا غم چھوڑ کر خیبرپختون اور قبائلی عوام کا غم کریں۔ انہیں زرداری اور نواز شریف کی فکر نہیں پڑی بلکہ اپنی فکر پڑی ہوئی ہے کہ کل ان کے خلاف اگر قانون حرکت میں آئے تو ان کا کوئی نہ کوئی پوچھنے والا ہو۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسفندیار ولی اور اے این پی دور حکومت کی کرپشن کیخلاف تحقیقات اس لئے نہیں ہوسکی کہ پرویز خٹک نے قومی احتساب بیورو نیب کے مقابلے میں اپنا احتساب کمیشن قائم کیا تھا، جس کے ذریعے انہوں نے نہ صرف اپنے آپ کو بچایا، بلکہ پانچ سال کے دوران اے این پی حکومت کا بھی احتساب نہیں کر سکے۔ تاہم گزشتہ دنوں اسمبلی نے صوبائی احتساب کمیشن کو دفن کر دیا اور اب نیب کو اے این پی اور تحریک انصاف کے گزشتہ پانچ سالہ دور کے منصوبوں کے حوالے سے تحقیقات کرنے میں جو رکاوٹ تھی وہ دور ہو گئی ہے اس لئے اے این پی اور تحریک انصاف کے بعض لوگ نیب کے شکنجے میں آسکتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭