پولیس مولانا سمیع الحق کے قتل کا معمہ حل کرنے میں ناکام

مرزا عبدالقدوس
مولانا سمیع الحق کی شہادت کو دو ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک پولیس ان کے قتل کا معمہ حل نہیں کرسکی اور نہ قاتلوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ کیس میں پیشرفت نہ ہونے پر مولانا سمیع الحق کے اہل خانہ اور عقیدت مند شدید تشویش کا شکار ہیں۔ تاحال تفتیشی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ گزشتہ برس دو نومبر کو جائے وقوعہ پر موجود ملازم احمد شاہ جو مولانا کا سیکریٹری اور ڈرائیور بھی تھا، اس کا کردار کسی حد تک مشکوک ہے۔ کیونکہ تفتیشی افسران کی پوچھ گچھ کے دوران احمد شاہ نے جھوٹ بولا اور غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ مولانا سمیع الحق کے بڑے صاحبزادے اور جے یو آئی (س) کے امیر مولانا حامدالحق کے مطابق ان سے جس حد تک ممکن تھا، انہوں نے پولیس سے تعاون کیا اور تفتیشی و پولیس حکام سے ایک ہی مطالبہ کیا کہ مولانا شہید کے قاتلوں کو بے نقاب کرکے انہیں گرفتار کیا جائے۔ لیکن ابھی تک انہیں کسی پیشرفت سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا حامدالحق نے کہا کہ ’’احمد شاہ کے بارے میں میڈیا کے ذریعے ہی ہمارے علم میں یہ خبریں آئی ہیں کہ اس کے بیان میں کہیں تضاد پایا گیا ہے یا پولی گرافک ٹیسٹ کے مطابق احمد شاہ نے جھوٹ بولا ہے۔ لیکن پولیس حکام نے ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا، نہ ہمیں اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے‘‘۔ مولانا حامدالحق نے کہا کہ ’’ہماری خواہش ہے کہ احمد شاہ سے ہماری ملاقات کرائی جائے۔ کیونکہ چھ سات ہفتے پہلے پولیس اس کو لیکر گئی تھی، اس کے بعد سے ہمارا احمد شاہ سے نہ کوئی رابطہ ہوا ہے اور نہ اس سے ہونے والی معلومات یا تفتیش سے ہم آگاہ ہیں۔ اگر کوئی نئی معلومات ملی ہیں یا احمد شاہ کا کردار پولیس حکام کے خیال میں مشکوک ہے تو ہمیں بھی بتایا جائے، اعتماد میں لیا جائے اور احمد شاہ کو ہمارے سامنے بٹھایا جائے‘‘۔
ذرائع کے مطابق احمد شاہ گزشتہ بیس بائیس سال سے مولانا سمیع الحق شہید کے ساتھ ڈیوٹی کررہا تھا۔ اس نے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں دس بارہ سال تعلیم حاصل کی تھی اور اس کے آباء کا تعلق افغانستان سے تھا، جو ستر کی دہائی میں پاکستان آگئے تھے۔ احمد شاہ، مولانا سمیع الحق کے ساتھ مستقل ڈیوٹی پر آنے سے پہلے دوران تعلیم افغان جہاد میں بھی شریک ہوتا رہا۔ وہ اپنے بیوی بچوں اور بوڑھی والدہ کے ہمراہ اکوڑہ خٹک سے باہر مقیم تھا۔ جہاں اب بھی اس کی معذور والدہ، اہلیہ، پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا رہائش پذیر ہیں۔ جبکہ احمد شاہ گزشتہ چھ ہفتے سے راولپنڈی پولیس کی حراست میں ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق دوران تفتیش احمد شاہ سے دو سوالات کئے گئے کہ کیا وہ مولانا سمیع الحق کے قاتلوں کو جانتا ہے؟ اور کیا وہ قتل کی اس منصوبہ بندی میں شریک تھا؟۔ پولی گرافک ٹیسٹ کی رپورٹ کے مطابق ان سوالات کے جواب میں اس نے اپنی لاعلمی کا اظہار کرکے جھوٹ بولا، جس کے بعد اس کا کردار مشکوک سمجھا جا رہا ہے۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت کے بعد احمد شاہ ہفتہ دس دن اکوڑہ خٹک میں موجود رہا اور اس نے جامعہ حقانیہ کے ذمہ داران کے سوالات کے جواب بھی دیئے اور تفصیل سے بتایا کہ کیسے یہ واقعہ پیش آیا۔ لیکن جامعہ حقانیہ میں کسی نے اس پر شک کا اظہار نہیں کیا تھا، کیونکہ اس کا گزشتہ 30/35 سال کا ماضی سب کے سامنے ہے۔ لیکن اب پولیس رپورٹ کے بعد جامعہ کے حکام بھی تذبذب میں مبتلا ہیں اور پولیس کی تفصیلی رپورٹ سے آگاہ ہونے کے بعد احمد شاہ سے بھی ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے پولیس سے رابطہ بھی کیا ہے اور امکان ہے کہ ایک دو دن میں احمد شاہ سے جامعہ حقانیہ سے آنے والے افراد کی ملاقات کرائی جائے گی۔ جس کے بعد مولانا سمیع الحق شہید کے بیٹے مولانا حامدالحق اس سلسلے میں میڈیا اور مولانا کے عقیدت مندوں کو بھی اعتماد میں لیں گے۔
امیر جے یو آئی ’’س‘‘ مولانا حامدالحق نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے علم میں میڈیا کے ذریعے ہی یہ بات آئی ہے کہ شہادت کے دن مولانا سے ملاقات کیلئے آنے والے تین افراد کے بھی پولیس نے پولی گرافک ٹیسٹ لیے اور ان کو ان کے بیانات کی روشنی میں کلیئر کر دیا گیا ہے۔ وہ تین ملاقاتی کون تھے، پولیس نے ان کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں بتایا اور نہ میں وثوق سے فی الحال ان کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ کون تھے۔ ہم نے کل اس سلسلے میں مشاورت کی ہے اور میڈیا پر جو خبریں آرہی ہیں اس کے بعد متعلقہ پولس حکام سے رابطہ کر کے ان کے ساتھ ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے، تاکہ وہ اس سانحے کے بارے میں اب تک کی تفتیش سے ہمیں آگاہ کریں۔ مزید یہ کہ ہماری احمد شاہ سے ملاقات کرائی جائے تاکہ اس سے بھی ہم سوالات کر سکیں۔ کیونکہ پولیس کی وساطت سے اس کے بارے میں جو خبریں آرہی ہیں وہ ہمارے لیے تشویش ناک ہیں۔ لیکن اپنے اطمینان کے بغیر ہم کسی کے کردار پر انگلی نہیں اٹھا سکتے‘‘۔ مولانا حامدالحق نے کہا کہ مولانا سمیع الحق کی شہادت بلاشبہ عالمی استعمار کی سازش اور ان کے ایجنڈے کا حصہ تھی۔ لیکن اس میں کون کون استعمال ہوا، ان کرداروں کو بے نقاب اور اس سازش کی تمام کڑیاں جوڑنا حکومت، پولیس اور اداروں کی ذمہ داری ہے، جس کے لیے ہم ان پر دبائو ڈالتے رہیں گے اور اپنا یہ مطالبہ بھی دہرائیں گے کہ ہمیں قاتلوں اور ان کے سرپرستوں سے آگاہ کیا جائے‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment