کراچی کی جیلوں میں متحدہ کے نیٹ ورک فعال

امت رپورٹ
کراچی کی جیلوں میں متحدہ کے نیٹ ورک فعال ہیں۔ صولت مرزا کے ساتھی بدنام زمانہ ٹارگٹ کلرز کراچی سینٹرل جیل کی اہم کھولیوں پر قابض اور نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ اندرون سندھ کی جیلوں میں بھیجے گئے دہشت گرد قیدی واپس کراچی پہنچ چکے۔ سینٹرل جیل میں 2 ہزار 400 قیدیوں کی گنجائش ہے، لیکن اس وقت 6 ہزار کے قریب قیدی موجود ہیں۔ ملیر جیل میں بھی گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں اور یہ کہ وہاں تعینات اہلکار ملاقاتیوں سے وصولیاں کرتے ہیں۔
ایک روز قبل ملیر جیل میں سرچ آپریشن کیا گیا، جو جیل انتظامیہ کی درخواست پر رینجرز نے کیا۔ 4 گھنٹے جاری رہنے والے آپریشن کے دوران جیل کو سیل کر دیا گیا تھا۔ آپریشن کے دوران سنگین نوعیت کے مقدمات میں بند ٹارگٹ کلرز، دہشت گردوں سمیت تمام قیدیوں کے بیرکوں کی تلاشی لی گئی۔ اس کے علاوہ قیدیوں کے سامان کی بھی تلاشی لی گئی اور قیدیوں سے پوچھ گچھ بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ خطرناک دہشت گردوں سے ملاقات کرنے والوں کا ریکارڈ بھی چیک کیا گیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملیر جیل میں فوٹو کاپی والا بھی ملاقاتیوں سے سامان کیلئے لکھی ہوئی پرچی، لفافہ اور ملاقات فارم کے 50 روپے فی قیدی کے حساب سے وصول کرتا ہے۔ جیل کے مین گیٹ پر تعینات اہلکار جیل آنے والے ملاقاتیوں کے موبائل فون رکھتے ہیں۔ لیکن واپسی پر 30 روپے لینے کے بعد ہی دیتے ہیں۔ قیدی کو اس کے اہلخانہ کی طرف سے دیئے گئے 1000 روپے سے 200 کے حساب سے الگ کرلئے جاتے ہیں۔ اسی طرح کورٹ سے واپسی پر 350 قیدیوں سے فی قیدی 50 روپے الگ تلاشی کے نام پر لئے جاتے ہیں۔ اسپیشل ملاقات یعنی فیس ٹو فیس ملاقات کے 3500 روپے لیتے ہیں اور یہ ملاقات 40 منٹ ہوتی ہے۔ ایسی خصوصی ملاقاتیں دن میں 12 یا 13 مرتبہ ہوتی ہیں۔ جبکہ ملاقات روم میں بھی جلدی ملاقات والوں سے شارٹ پرچی کے نام پر 200 روپے لئے جاتے ہیں۔ پیسوں کے عوض اہلکار بغیر نمبر کے جلد ملاقات کراتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملیر جیل میں کراٹین نامی ایک تشدد خانہ ہے، جس میں نئے آنے والوں قیدیوں کو رکھا جاتاہے۔ پرانے اور سزا یافتہ قیدیوں کے ہاتھوں ان پر تشدد کیا جاتا اور اذیت دی جاتی ہے اور یہ سلسلہ تب تک چلتا ہے، جب تک اس کے گھر والوں سے فی کس 25000 کے حساب سے وصولی نہ ہوجائے۔ ملیر جیل میں معمولی غلطی پر قیدیوں کے بیرک تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ پھر واپس اپنی بیرک میں آنے کیلئے 5 ہزار روپے جرمانہ دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح جیل میں کسی بھی قیدی کو دوسرے قیدی سے معمولی تلخ کلامی پر سیل وارڈ کردیا جاتا ہے۔ جہاں 7 دن تک قیدی سب کچھ کھڑے کھڑے کرتا ہے۔ سیل وارڈ سے نکلنے کیلئے بھی 3000 روپے دینا پڑتے ہیں۔ جیلوں کی صورتحال کو جاننے والے ’’ماہرین‘‘ کا کہنا ہے کہ ملیر جیل میں کیا جانے والا سرچ آپریشن باریک بینی سے نہیں کیا گیا۔ کیونکہ صبح 8 بجے کے بجائے آپریشن 4 سے 5 بجے کے درمیان کیا جانا چاہئے تھا۔ جبکہ آپریشن میں حصہ لینے والے اہلکارو ں کی شناخت مخفی رکھنے کے لئے ان کے چہروں پر حسب معمول ماسک ہونا چاہئے تھا، جو نہیں تھا۔
ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کی سینٹرل جیل میں بھی سرچ آپریشن کی ضرورت ہے، جہاں ایم کیو ایم سمیت دیگر کالعدم تنظیموں کے کارکنان اسیر ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق کراچی کی سینٹرل جیل میں ایم کیو ایم کا نیٹ ورک موجود ہے۔ بی کلاس کی بیرکس 17 اور 18 کو ایم کیو ایم کے کارکنان سے خالی کرایا گیا تھا، جس کے بعد ایم کیو ایم کے کارکنان کو سفارشوں پر من پسند کھولیاں دی جارہی ہیں۔ ایم کیو ایم کا کراچی کی جیلوں میں اثر و رسوخ کم کرنے یا ختم کرنے کیلئے نیٹ ورک کو منتشر کیا گیا تھا۔ جس میں بعض قیدی کارکنان کو اندرون سندھ کی جیلوں میں بھیجا گیا تھا۔ تاہم اب کراچی کی جیلوں میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کو دوبارہ فعال ہونے کے مواقع مل گئے ہیں۔ کیونکہ اندرون سندھ کی جیلوں میں بھیجے گئے متحدہ کے کارکنان واپس آنے لگے ہیں۔ سینٹرل جیل میں اس وقت بھی ایم کیو ایم کے خطرناک ترین دہشت گرد موجود ہیں، جن میں سے بعض سینکڑوں شہریوں کے قاتل ہیں۔ ان میں سے صرف ایک قیدی صولت مرزا کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔ جبکہ اسی کیس میں منہاج قاضی سمیت دیگر شامل تھے۔ جس کو تاحال قید رکھا ہوا ہے اور اس سمیت متحدہ کے دیگر ٹارگٹ کلرز نیٹ ورک چلا ہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کی سینٹرل جیل میں ایم کیو ایم کے کارکن قیدیوں کی تعداد دوبارہ 700 سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان میں ایم کیو ایم کے خطرناک دہشت گرد اور پولیس سمیت سینکڑوں شہریوں کا قاتل رئیس مما، طاہر لمبا، فیصل موٹا، نادر شاہ، عبید کے ٹو، عمیر صدیقی اور سعید بھرم سمیت دیگر شامل ہیں۔ ذرائع کے بقول کراچی سینٹرل جیل میں ایم کیو ایم لندن کا نیٹ ورک کس قدر فعال ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ رئیس مما اور نادرشاہ جیل کی کھولی نمبر 3 پر تاحال قابض ہیں۔ اسی کھولی میں ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر، کنور نوید، رئوف صدیقی کے علاوہ صولت مرزا اور اجمل پہاڑی رہے ہیں۔ اسی سبب مذکورہ کھولیوں پر ایم کیو ایم کارکنان قیدیوں کی اجارہ داری قائم ہے۔ ان خطرناک قیدیوں کے کیسوں کی صورت حال بھی زیادہ تسلی بخش نہیں۔ کیونکہ اب تک 63 سے 65 کیسز کے فیصلے ہوئے ہیں۔ جبکہ ان میں سے بھی متعدد اپیل میں جاچکے ہیں۔ مزید تشویش کی صورت حال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے دیگر دہشت گردوں کے کیسز التوا کا شکارہو گئے ہیں۔
کراچی سینٹرل جیل میں ایک جانب ایم کیو ایم کے کارکنان کو سہولیات حاصل ہیں تو وہیں عام قیدیوں کو شدید مسائل کا بھی سامنا ہے۔ جیل اسپتال سے عام قیدی مریض کو باہر کے اسپتال شفٹ کرنا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ جیل انتظامیہ منتقلی کے لئے بھی عدالتی احکامات طلب کرتی ہے۔ جبکہ گزشتہ ایک سال میں تقریباً ڈیرھ سو سے زائد قیدی جیل کے اندر سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مرچکے ہیں۔ جیل اسپتال کی ایکسرے مشین عرصے سے خراب ہے۔ بیرکوں میں جگہ سے زائد قیدی بند ہیں، جس کی وجہ سے خارش کی بیماری، ہیپاٹائٹس، گردے کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ادویات کی خریداری اور اس کا بروقت استعمال، پھر جیل میں آنے والی ادویات کی کوالٹی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ سیوریج اور نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے میو وارڈ، چکر وارڈ، دارالقرآن وغیرہ کے باتھ روم انتہائی خراب حالت میں ہیں۔ قیدیوں کو کورٹ لے جانے والی گاڑیوں کی کمی کی وجہ سے ایک گاڑی میں ستّر سے اسی تک قیدی لے جائے جاتے ہیں۔ کراچی سینٹرل جیل کے مستقل قیدیوں کیلئے کوئی اصول نہ بنائے جانے کے سبب جن قیدیوں کو معافی ملتی ہے، انہیں معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ انہیں معافی مل گئی ہے۔ معلوم رہے کہ سینٹرل جیل کراچی کا مجموعی رقبہ تقریباً 45 ایکڑ ہے، جس میں 2 ہزار 400 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ تاہم اس وقت کراچی سینٹرل جیل میں 6 ہزار کے قریب قیدی موجود ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment