امت رپورٹ
مہمند ڈیم کا ٹھیکہ چینی فرم گھیزونبا اور عبدالرزاق دائود کی کمپنی ڈیسکون کو دینے پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔ واپڈا اور سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ تین سو بلین روپے کا ٹھیکہ الاٹ کرتے ہوئے قوانین کو نظر انداز کیا گیا۔ چینی کمپنی کی ساکھ پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ گھیزونبا کو ورلڈ بینک نے اپنے گروپ سے خارج کر دیا تھا۔ تحریک انصاف کے اندر بھی عبدالرزاق دائود کی کمپنی ڈیسکون (Descon) اور چینی کمپنی گھیزونبا (Gheezo nba)کو ٹھیکہ دیئے جانے پر اختلافات ہیں اور اس حوالے سے پارٹی کے اندر اور سوشل میڈیا شدید رد عمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔
تحریک انصاف نے پرویز مشرف کے آزمودہ وزیر تجارت و صنعت عبدالرزاق دائود کو مشیر تجارت و صنعت بنا کر انہی کی کمپنی کو مہمند ڈیم کا ٹھیکہ دے دیا ہے۔ عبدالرزاق دائود نومبر 1999ء سے 2002ء تک پرویز مشرف کے وزیر تجارت رہے تھے۔ کرپشن کے خلاف کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے چینی فرم گھیزونبا اور کمپنی ڈیسکون کو ٹھیکہ دیئے جانے کو پیپرا رولز کی شدید خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے چیئرمین واپڈا کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ مہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے 309 ارب روپے کا ٹھیکہ چینی کمپنی اور ڈیسکون کو پیپرا قواعد کے مطابق نہیں دیا جا سکتا۔ پہلی خلاف ورزی تو یہ ہے کہ واحد بولی پر یہ ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ واپڈا نے نومبر 2017ء میں مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئے ٹینڈر ڈاکومنٹس جاری کیے تھے۔ جس کے جواب میں دوکمپنیوں نے بولیاں دی تھیں۔ چائنا گھیزونبا اور ڈیسکون جوائنٹ وینچر اور ایف ڈبلیو او، پی سی جوائنٹ وینچر شامل تھیں۔ دونوں نے اپنے اپنے ٹینڈر 26 جون 2018ء کو جمع کرائے تھے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق جس کا چیئرمین واپڈا کو لکھے گئے خط میں بھی ذکر کیا گیا کہ ’’چائنا گھیزونبا‘‘ نیپال میں کئی تعمیراتی کاموں کے دوران غیر معیاری کام اور کرپشن کی مرتکب ہوئی ہے۔ گھیزونبا گروپ آف کمپنی کی ان بے قاعدگیوں کی وجہ سے ہی اس گروپ کی کئی کمپنیوں کو ورلڈ بینک نے اپنے گروپ سے خارج کر دیا تھا۔ 13 نومبر2017ء کو گھیزونبا گروپ کے ساتھ 2.5 ارب ڈالر کے معاہدے کو نیپال کی کابینہ نے ختم کر دیا، کیونکہ یہ کمپنی ملک کے سب سے بڑے ہائیڈرو پاور پلانٹ کی بروقت تعمیر میں ناکام رہی تھی۔ اسی طرح 9 مارچ 2017ء کو واپڈا نے اسی گروپ کی ایک کمپنی کو 180 ارب روپے کا ٹھیکہ دیا، تاکہ داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی تعمیر شروع ہو۔ اس چینی فرم کے ذمے اس منصوبے کا سول ورک تھا۔ لیکن پونے دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج تک بنیادی کام بھی نہیں شروع کر سکی ہے۔ واضح رہے کہ ملک میں تعمیراتی کاموں کا بڑا تجربہ رکھنے والے ادارے فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن (FWO) کو نظر انداز کر کے یہ ٹھیکہ وزیر اعظم کے مشیر خاص عبدالرزاق دائود کی کمپنی کو دیا گیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل پاکستان کا کہنا ہے کہ پیپرا رولز 2004ء کے مطابق واحد بولی پر ٹھیکہ جاری کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 2014ء میں پورٹ قاسم پر ایل این جی ٹرمنل کی تعمیر کا ٹھیکہ واحد بولی پر دیا گیا تھا۔ اب اس پر نیب انکوائری جاری ہے کہ یہ غیر قانونی طور پر دیا گیا تھا۔ اسی طرح پورٹ قاسم پر 2016ء میں دوسرا ایل این جی ٹرمنل دیا گیا، جس میں قواعد کا خیال رکھا گیا تو اس ٹھیکے کی لاگت میں واحد بولی والے ٹھیکے کی لاگت سے 36 فیصد کمی تھی۔ واپڈا کے چیئرمین سے ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل نے کہا ہے کہ وہ گھیزونبا گروپ کی بے قاعدگیوں کا جائزہ لینے کے بعد مہمند ڈیم منصوبے کے ٹینڈرز دوبارہ طلب کریں۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق مہمند ڈیم پروجیکٹ پر تعمیراتی کام کا آغاز جنوری کے دوسرے ہفتے میں ہو جائے گا۔ کنٹریکٹ حاصل کرنے والے مذکورہ جوائنٹ وینچر کے ساتھ تکنیکی مذاکرات جاری ہیں۔ خیال رہے کہ مہمند ڈیم کی تعمیر کا کنٹریکٹ حاصل کرنے والی کمپنی چائنا گھیزونبا کا ٹھیکے میں حصہ 70 فیصد، جبکہ ڈیسکون کا حصہ 30 فیصد ہے۔
ادھر مقتدر حلقے بھی اس صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی بھی منصوبے کی ابتدا اقربا پروری اورکرپشن سے ہو۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر چیئرمین نیب کو از خود ایکشن لینا ہوگا، کیونکہ چیئرمین واپڈا کے نام خط کی نقل چیئرمین نیب کو بھی ارسال کی گئی ہے۔ خود تحریک انصاف میں بھی اس حوالے سے بڑی تشویش پائی جاتی ہے کہ وزرا میں وہ گروپ، جس کا تعلق پرویز مشرف سے رہا ہے، حاوی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ عبدالرزاق دائود شوکت خانم ٹرسٹ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ہیں۔ موصوف نمل یونیورسٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی ہیں، جبکہ عمران خان فائونڈیشن کے بھی عہدیدار ہیں۔ تحریک انصاف کے لئے بیرون ملک سے فنڈز اکٹھا کرنے میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈیسکون کمپنی کو ٹھیکہ دیئے جانے پر تحریک انصاف میں بھی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی پی ٹی آئی کارکنان اور حامیوں نے کہا ہے کہ ’’وہ کام جن پر عمران خان خود نون لیگ کی حکومت پر تنقید کیا کرتے تھے، اب وہ کیسے جائز ہو سکتے ہیں‘‘۔ انصافی کارکنان کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’’مہمند ڈیم کا ٹھیکہ دینے کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور تمام فیصلے میرٹ پر ہونے چاہئیں‘‘۔ تاہم حکومتی وزرا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس کنٹریکٹ کو دینے میں میرٹ کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور یہ ٹھیکہ تحریک انصاف کی حکومت آنے سے پہلے جاری کیا گیا ہے‘‘۔ چیئرمین واپڈ کا بھی وضاحتی بیان میں کہنا تھا کہ چائنا گھیزونبا اور ڈیسکون کو میرٹ پر ٹھیکہ دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق عبدالرزاق دائود کو اپنا تجارتی مفاد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طرح ہی عزیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہیں مشیر تجارت مقرر کیا گیا تو انہوں نے سب سے پہلے عوام کو رعایتی قیمت پر اشیائے خور و نوش مہیا کرنے والے ادارے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کو ختم کرنے کی ٹھان لی۔ تاکہ اس کے نیٹ ورک کو کسی نجی چین کے حوالے کیا جا سکے۔ یوٹیلٹی اسٹورز کی 1400 شاخیں بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور بہانہ یہ بنایا کہ 13 ارب روپے کا خسارہ ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کو خریداری بند کرنے کا حکم بھی دے دیا گیا تھا۔ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ملازمین کے احتجاج پر یہ عمل فی الحال رک گیا ہے۔ لیکن کسی بھی وقت یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن پر نزلہ گر سکتا ہے۔ فی الوقت عبدالرزاق دائود کی نظریں بڑے منصوبوں پر ہیں۔ ذرائع کے بقول مہمند ڈیم اور سی پیک پر کافی عرصے سے عبدالرزاق دائود کی نظر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مشیر تجارت بننے کے بعد ان کی سب سے زیادہ ملاقاتیں چینی سفیر اور چینی حکام کے ساتھ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ چین میں بھی وزیر اعظم کے ساتھ گھیزونبا گروپ کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری رہا۔ ایک نجی گروپ کے ساتھ وزیر اعظم کی ملاقات پر سوالات اٹھتے، کہ وزیر اعظم کے مشیر عبدالرزاق دائود کی کمپنی ڈیسکون نے مہمند ڈیم کا ٹھیکہ حاصل کر لیا۔ مہمند ڈیم کے ٹھیکے کی بولی میں ایف ڈبلیو او اور پاور چائنا نے بھی حصہ لیا۔ تاہم ڈیسکون نے چینی کمپنی گھیزونبا کے ساتھ مل کر 309 ارب روپے کی بولی دے کر ٹھیکہ اپنے نام کرلیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عبدالرزاق دائود ڈیسکون کے بانی ہیں۔ تاہم وزیر اعظم کا مشیر بننے کے بعد انہوں نے کمپنی کی چیئرمین شپ چھوڑ دی تھی۔ اب ان کے بیٹے تیمور دائود ڈیسکون کے چیئرمین ہیں۔ لیکن ذرائع کے مطابق یہ ٹھیکہ ملنے کے بعد صاف ظاہر ہے کہ اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور ایک ایسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا، جس کا ٹریک ریکارڈ عالمی بینک کے مطابق شفاف نہیں ہے اور خود پاکستان میں بھی اس کمپنی کا ریکارڈ یہ ہے کہ ٹھیکہ ملنے کے باوجود کوئی کام نہیں کرتی۔ مہمند ڈیم میں تین لاکھ کیوسک پانی ذخیرہ کرنے کے علاوہ 800 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہوگی۔ 2003ء میں ڈیم کی تعمیر کی لاگت ایک ارب ڈالر تھی، جو تاخیر کی وجہ سے اب بڑھ کر تین ارب ڈالر ہوگئی ہے۔ عبدالرزاق دائود اس منصوبے کا فوری افتتاح چاہتے ہیں۔ لیکن وزارت آبی وسائل کے مطابق مہمند ڈیم کا نظر ثانی شدہ پی سی ون تاحال منظور نہیں ہوا اور زمین کی خریداری بھی مکمل نہیں ہوئی۔ جبکہ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی نے بھی منصوبے کا این او سی نہیں دیا۔ منصوبے کی جلد بازی میں افتتاح سے مسائل پیدا ہوں گے اور خود وزیر اعظم عمران خان پر انگلیاں اٹھیں گی کہ اتنے بڑے منصوبے میں انہوں نے شفافیت کا کوئی خیال کیوں نہیں رکھا۔ دوسری جانب ڈیسکون کے سربراہ کی حیثیت میں عبدالرزاق دائود انگریزی اخبار ڈان سے یہ کہہ چکے ہیں کہ سی پیک کے تعمیراتی اور تیل و گیس کے منصوبوں پر ان کی نظر ہے۔ خاص کر ان کی نظریں ہائیڈرو الیکٹرک پاور منصوبوں پر ہے۔ (ڈان 8 جنوری 2018ء)۔ اگر وہ ان منصوبوں میں شراکت دار بننا چاہتے ہیں تو مشیر تجارت کا عہدہ چھوڑ کر آزادنہ مقابلہ کریں۔ یہ نہ ہو کہ ایف ڈبلیو او جیسے تجربہ کار ادارے کو بلیک لسٹ کمپنی کے مقابلے میں مسترد کر دیا جائے۔
٭٭٭٭٭