نجم الحسن عارف
صرف چوبیس گھنٹوں کے اندر سابق صدر آصف علی زرادری کے ساتھ مولانا فضل الرحمان کی دوسری اہم ملاقات ہوئی۔ سابق صدر نے مولانا فضل الرحمان کو ایوان کے اندر سے تبدیلی کیلئے کوششوں میں تعاون کا اشارہ دے دیا۔ واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری میں گزشتہ روز پہلی ملاقات ایک معروف صحافی کے بیٹے کی شادی کے موقع پر ہوئی، جس میں اہم حکومتی اتحادی اور سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت بھی شریک تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شادی کی مذکورہ تقریب میں شریک ہونے والے تین بڑے سیاستدانوں کی غیر رسمی ملاقات میزبان نے پہلے سے ڈیزائن کر رکھی تھی۔ اس لیے ان سیاسی رہنمائوں میں ملاقات مہمانوں کی عمومی نشست گاہ میں نہیں، بلکہ اس سے ملحق ایک خصوصی کمرے میں ہوئی جہاں سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو پہلے سے موجود تھے جن سے سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے اتحادی سیاستدان چوہدری شجاعت کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام {(ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے بطور خاص ملاقات کی۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ محض گپ شپ کا موقع تھا جیسا کہ سماجی نوعیت کی تقریبات میں ہوتا ہے اور یہ کہ میڈیا نے ملک میں بنی ہوئی مخصوص صورت حال میں ملاقات کو معانی پہنانے کی کوشش کی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق صورت حال کتنی بھی خراب ہو، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ پی پی پی کو مقتدر حلقوں تک پیغام پہنچانے کیلئے مسلم لیگ (ق) کی قیادت کا سہارا لینے پڑے۔ یہ ملاقات ہوئی ہے مگر ایک مختصر ملاقات تھی جسے میڈیا نے ضرورت سے زیادہ توجہ دی ہے۔ تاہم ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری کی ایک ملاقات ان دو ملاقاتوں سے پہلے بھی ہو چکی ہے۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے ملک میں آئندہ دنوں سیاسی ملاقاتوں میں مزید تیزی آ سکتی ہے۔ آصف زرداری سے چوہدری شجاعت اور مولانا فضل الرحمان کی مشترکہ ملاقات کے ’’فالو اپ‘‘ میں مزید ملاقاتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ عمران خان کی حکومت جتنا زیادہ عرصہ رہے گی اتنا زیادہ نقصان ہو جائے گا۔ انہوں نے اس موقع پر سیاسی قائدین کے جیلوں میں بند کیے جانے اور نت نئے کیسز کے کھلنے کو بھی افسوس ناک قرار دیا۔ ذرائع کے مطابق یہ ملاقات زیادہ لمبے دورانیے کی نہیں تھی۔ اس لیے جلد اپوزیشن رہنمائوں کے درمیان مزید ملاقات ہو سکتی ہے۔ ان ذرائع نے یہ بھی کہا کہ بلاشبہ سیاسی ملاقاتوں اور دوسرے رابطوں میں تیزی آرہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران سیاسی جماعتوں اور مقتدر حلقوں کے درمیان رابطوں کے نتائج بھی اگلے چند ہفتوں میں آنا شروع ہو جائیں۔ ان ذرائع نے یہ بھی دعوی کیا کہ مسلم لیگ نواز کے لندن میں بوجہ علالت مقیم رہنما اسحاق ڈار سے بھی حالیہ ہفتوں میں اہم لوگوں کی ملاقات ہوئی ہے۔ اسی پس منظر میں میاں نواز شریف جیل میں ہونے کے باوجود بڑے پر امید اور مطمئن ہیں۔ اسی امید کی وجہ سے جمعرات کے روز ملاقات کے لیے آنے والے بعض اپنے ملاقاتیوں کو غیر رسمی انداز میں کہا ہے کہ ہو سکتا ہے اگلی ایک دو جمعراتوں تک ان سے پارٹی کے لوگ جیل کے بجائے رائیونڈ میں ملنے کے لیے آسکیں۔ واضح رہے کہ مشہور صحافی کے بیٹے کی شادی میں مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق بھی شریک رہے۔ تاہم چوہدری شجاعت حسین نے زیادہ گفتگو کرنے کے بجائے سب کی سننے کو ترجیح دی۔
ذرائع کے مطابق میزبان نے تخلیہ کا بطور خاص اہتمام کیا تھا تاکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اعلی سطح کے رابطوں میں سہولت دے سکیں۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی سابق صدر سے حالیہ دنوں میں اس ملاقات کے علاوہ اور ملاقات بھی ہوئی ہے۔ ان ذرائع کے بقول پہلی ملاقات میں مولانا فضل الرحمان نے سابق صدر سے بہت شکوے کیے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اگر الیکشن کے بعد پیدا شدہ صورت حال میں پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دیتی تو پی ٹی آئی کی حکومت بنتی اور نہ سیاسی قائدین کوایسی مشکل صورت حال کا سامنا ہوتا۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاشبہ سیاسی منظر نامے میں تیزی آگئی ہے اور آنے والے دنوں میں بڑی خبروں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حامد میر جن کے ایک بھائی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پرلاہور سے الیکشن بھی لڑ چکے ہیں، پی پی پی کے ساتھ اپنی نظریاتی قربت اور سماجی تعلقات کی بنیاد پر آصف علی زرداری کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ نواز کی قیادت حالیہ چھ مہینوں کے دوران اس نامور صحافی کے ’’یوٹرن‘‘ لینے سے ناراض ہے۔
لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ لیگی قیادت کے خلاف مذکورہ صحافی ایک پارٹی بن کر سامنے آگئے۔ اسی وجہ سے اس شادی میں نواز لیگ کے اہم رہنما نمایاں نظر نہ آئے۔ تاہم مولانا فضل الرحمان نے سابق صدر کے ساتھ ملاقات میں نواز لیگ کا موقف بالواسطہ انداز میں پہنچا دیا۔ شادی کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں چوہدری شجاعت کی موجودگی میں مولانا فضل الرحمان نے زیادہ گفتگو کی تاکہ غیر رسمی اور بالواسطہ انداز میں حکومت کو اپوزیشن کے جذبات اور کسی بھی مرحلے پر ممکنہ مشترکہ حکمت عملی کے امکان کی جانب متوجہ کیا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق اس موقع پر وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فارق نے بھی سیاسی قائدین کے سامنے مسلم لیگ کا حصہ ہونے کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا سابق صدر سے اپنی حالیہ دنوں میں ہونے والی ملاقاتوں میں لب و لہجہ سخت اور شکایت پر مبنی تھا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری کے درمیان جلد ملنے کا اصولی طور پر جمعہ کے روز ہی طے ہو گیا تھا۔ اس لیے صرف چوبیس گھنٹے کے اندر ایک اور ملاقات ہوگئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک موقف اور حکمت عملی پر زور دیا ہے۔ اور ماضی میں ایک دوسرے سے پیدا ہونے والی شکایتوں اور تلخیوں کو بھلا کر مل کر آگے چلنے پر زور دیا۔ سابق صدر نے بھی انہیں اپوزیشن کی پارلیمنٹ کے اندر مشترکہ حکمت عملی میں تعاون کا یقین دلا دیا ہے۔ اس کے ذریعے ایوان کے اندر سے قیادت کی تبدیلی کے ایجنڈے پر بھی مل کر بات ہو سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق آنے والے دنوں میں مولانا فضل الرحمان جلد نواز لیگی قیادت سے بھی ملاقات کریں گے۔
٭٭٭٭٭