امت رپورٹ
مہمند ہائیڈرو پاور ڈیم کا متنازعہ ٹھیکہ کینسل کرنے کے لئے حکومت پر دبائو بڑھ گیا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے ذاتی دوست اور مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کی ملٹی نیشنل کمپنی ڈیسکون اور چینی کمپنی گھیزونبا نے مشترکہ طور پر ڈیم کی تعمیر کا کنٹریکٹ 310 ارب روپے کی بولی کے عوض حاصل کیا ہے۔ جہاں ایک طرف سوشل میڈیا پر اس حوالے سے شدید تنقید کا سلسلہ تاحال جاری ہے، وہیں دنیا بھر میں کرپشن پر نظر رکھنے والی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے بھی اس ٹھیکے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین واپڈا کو خط لکھا ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے اس ٹھیکے کی تحقیقات نیب سے کرانے کے لئے درخواست دائر کر دی ہے۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ تین اطراف سے پڑنے والے اس پریشر کے علاوہ اندرونی طور پر بھی اس ٹھیکے پر تنازعات پائے جاتے ہیں، اس صورت حال سے حکومت پریشان ہے، جس کے نتیجے میں ٹھیکہ دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کا امکان بڑھ گیا ہے۔ واپڈا کا ترجمان بھی اس قسم کا اشارہ دیتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ ابھی تک ڈیسکون اور اس کی پارٹنر چینی کمپنی کو یہ ٹھیکہ باقاعدہ طور پر نہیں دیا گیا، صرف بولی منظور کی گئی ہے، اس بولی کو اچھی طرح جانچنے کے بعد ہی ٹھیکہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
ذرائع کے بقول ڈیسکون کو ٹھیکے کا حصے دار بنائے جانے سے متعلق حکومت اور واپڈا کے درمیان تنازعات پچھلے کچھ عرصے سے جاری تھے، اور یہ کہ 2 جنوری کو اعلان کردہ ڈیم کی افتتاحی تقریب ملتوی کرنے کا بنیادی سبب اندرون خانہ چلنے والی یہی چپقلش تھی۔ وزیراعظم کی کچن کابینہ کے بعض ارکان کا مشورہ تھا کہ ٹھیکے کا معاملہ طے کرنے کے بعد ہی ڈیم کا افتتاح کیا جائے، جس پر وزیراعظم ہائوس کی جانب سے افتتاحی تقریب ملتوی کی گئی تھی، حالانکہ اس کے لئے واپڈا نے تیاری مکمل کر لی تھی۔ ذرائع کے مطابق کابینہ کے چند ارکان نے بھی وزیراعظم سے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ عبدالرزاق دائود کی کمپنی ڈیسکون کو یہ ٹھیکہ دیئے جانے سے اپوزیشن اور عوامی ردعمل آ سکتا ہے۔ لیکن اس مشورے کو اہمیت نہیں دی گئی۔ جبکہ اس متوقع صورت حال کو بھانپ کر پہلے ہی عبدالرزاق دائود ڈیسکون کی چیئرمین شپ سے دستبردار ہو گئے تھے، اور یہ عہدہ انہوں نے اپنے بیٹے تیمور دائود کو دے دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق کابینہ میں ٹھیکے کے حوالے سے جب چند ارکان کی طرف سے یہ معاملہ اٹھایا گیا تو اس کے لئے یہی دلیل دی گئی تھی کہ اب عبدالرزاق دائود کا ڈیسکون سے کوئی لینا دینا نہیں، لہٰذا ٹھیکہ دیئے جانے کی صورت میں کسی قسم کے ردعمل کا جواز نہیں ہو گا۔ تاہم ٹھیکہ دینے کے مخالفین کا کہنا تھا کہ باپ کے پاس سے کمپنی کی چیئرمین شپ بیٹے کے ہاتھوں میں چلے جانے کا مطلب ہے کہ گھر کی چیز گھر میں رہی، لہٰذا متحرک روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا کے دور میں یہ کمزور جواز پیش کر کے معاملے کو دبایا جانا مشکل ہو گا، اور اب یہ خدشات درست ثابت وہ رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض اہم حلقوں میں بھی اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اربوں روپے کے میگا پروجیکٹس بنانے کا تجربہ رکھنے والی ایف ڈبلیو او کو یہ کہہ کر تکنیکی بنیادوں پر بولی سے باہر کر دیا گیا کہ وہ کامیاب بولی کے لئے مطلوبہ قابلیت اور تجربہ نہیں رکھتی۔ حالانکہ ایف ڈبلیو او کے پاس نہ صرف اس قسم کے بڑے پروجیکٹ بنانے کا وسیع تجربہ ہے بلکہ اس سلسلے میں اس نے ماضی قریب میں گرائونڈ پر رزلٹ دیئے ہیں۔ جس میں فاٹا اور بلوچستان جیسے دور دراز علاقوں میں بہترین سڑکیں، ہائی ویز بنانا شامل ہے۔ اسی طرح پہاڑوں کو کاٹ کر تاریخی شاہراہ قراقرم کو بھی ایف ڈبلیو او نے تعمیر کیا، یہ ایک مشکل ترین پروجیکٹ تھا۔
ایف ڈبلیو او کو مہمند ڈیم کنٹریکٹ کی بولی سے باہر کرنے کے معاملے پر معروف تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کو بھی حیرت ہے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے آصف ہارون کا کہنا تھا کہ جب عبدالرزاق دائود نے مشیر تجارت کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالی تھیں تو اسی وقت سے یہ تاثر عام تھا کہ ان کا سی پیک میں بڑا اسٹیک ہے، اس سے قبل انہیں سی پیک کے ٹھیکے نہیں مل رہے تھے، اور اب یہ خدشات پورے ہو رہے ہیں۔ عبدالرزاق دائود کی خاندانی ڈیسکون کمپنی کو ڈیم کا ٹھیکہ ’’سنگل سورس‘‘ کے طور پر کھلے عام دے دیا گیا ہے۔ لیکن یہ ایشو دبنے والا نہیں جس طرح عاطف میاں کی تقرری پر حکومت کو یوٹرن لینا پڑا تھا، اسی طرح ڈیسکون کو مہمند ڈیم کا ٹھیکہ دینے کا فیصلہ بھی واپس لینا پڑے گا۔ آصف ہارون کے بقول ایک صرف مہمند ڈیم کے ٹھیکے کا معاملہ ہی نہیں، موجودہ حکومت کے اور بھی کئی معاملات ہیں جس میں اقربا پروری اور پسند و ناپسند کو ترجیح دی گئی ہے۔ ملک کے اہم حلقے بھی ان سارے معاملات کو بغور دیکھ رہے ہیں۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا کہنا تھا کہ ’’موجودہ حکومت کی جانب سے معیشت کو سنبھالنے میں ناکامی سب سے زیادہ تشویشناک بات ہے۔ دراصل پالیسی سازوں نے تین بڑی assumption سے آس لگا رکھی ہے کہ معاشی طور پر 2019ء بڑی تبدیلی لے کر آیا ہے۔ ان میں سے انہیں ایک توقع یہ ہے کہ رواں برس طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کے بعد افغانستان میں امن آ جائے گا۔ اس کے نتیجے میں افغانستان سے امریکہ کا انخلا ہو گا، جس سے وہاں بھارت کا اثر و رسوخ ختم ہونے کے سبب پاکستان میں بھی امن آجائے گا۔ اور یوں سی پیک کے کام میں تیزی آئے گی۔ دوسری توقع چین کی طرف سے دی جانے والی فری ٹریڈ ایگریمنٹ کی پیشکش کے حوالے سے ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کی ایکسپورٹ میں نمایاں اضافہ ہو گا۔ جبکہ پالیسی سازوں نے تیسری توقع ٹرمپ کے اس بیان سے لگا رکھی ہے، جس میں امریکی صدر نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان تینوں مواقع کو خوش اسلوبی سے کیش کرانے کے لئے ایک بہترین ٹیم کی ضرورت ہے، جو کہ موجودہ حکومت کی شکل میں دکھائی نہیں دے رہی‘‘۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کے مطابق وہ تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان سے انخلا اس وقت امریکہ کی بہت بڑی مجبوری ہے، لہٰذا وہ پاکستان کی مدد کے ذریعے ہر صورت وہاں سے نکلنا چاہتا ہے۔ جس کے بعد پاکستان میں بھی امن و امان پہلے سے بہتر ہونے کا قوی امکان ہے۔ یوں 2019ء میں خوشحالی سے وابستہ پاکستان کی توقع پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اسی طرح چین سے فری ٹریڈ کا معاہدہ ہو جانے کی صورت میں یقیناً پاکستان کی ایکسپورٹ بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔ تاہم آصف ہارون کے بقول تیسری assumption یعنی ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات قائم کرنے کی خواہش پر انہیں شکوک و شبہات ہیں۔ کیونکہ پچھلے 70 برس میں اسی طرح کی باتیں کر کے امریکہ پاکستان کو دھوکہ دیتا رہا ہے۔ واشنگٹن کو معلوم ہے کہ پاکستان اس کی کشتی سے نکل چکا ہے، اور اب چین کی طرف راغب ہے۔ جبکہ روس کا ہاتھ تھامنے والا ہے۔ لہٰذا پاکستان کو لولی پاپ دے کر امریکہ ایک بار پھر چین اور روس سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آصف ہارون کے مطابق پاکستان جب بھی بالخصوص روس کے نزدیک آتا ہے تو اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے امریکہ کی جانب سے اسی قسم کی خوش کن باتیں شروع کر دی جاتی ہیں اور پاکستان پھر ان باتوں میں آ جاتا ہے۔ ٹرمپ نے پاکستان سے نئے تعلقات کے آغاز کی خواہش کا اظہار تو ضرور کیا ہے لیکن عملی طور پر اس قسم کا کوئی ثبوت نہیں دیا جا رہا۔ پاکستان کی امداد بدستور بند ہے، اور بھارت کو امریکہ مزید اپنے قریب کر رہا ہے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود امریکی اپنے صدر پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تو پاکستان ٹرمپ پر کیسے اعتماد کر سکتا ہے؟ لہٰذا اس معاملے کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ٭
٭
٭٭٭٭٭