تابعین کے ایمان افروز واقعات

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ
اپنے پیشرو خلیفہ، سلیمان بن عبد الملک کی تدفین کے بعد جب امیر المومنین سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ نے سرکاری سواریوں، حفاظتی دستوں سمیت شاہی سواریوں کو دیکھا تو فرمایا: مجھے فوج وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ میرے ساتھ چلے، میں تو عام مسلمانوں کی طرح کا ایک فرد ہوں۔ جس طرح عام آدمی صبح گھر سے نکلتا ہے اور شام کو لوٹ آتا ہے، اسی طرح میں بھی عام آدمیوں کی طرح زندگی بسر کروں گا۔
یہ کہہ کر آپ چل پڑے، لوگ بھی آپ کے ساتھ چل پڑے، آپ مسجد میں تشریف لائے۔ اعلان کیا گیا کہ سب لوگ مسجد میں جمع ہو جائیں۔
اعلان سنتے ہی لوگ مسجد کی طرف تیزی سے چلنے لگے اور ہر طرف سے گروہ در گروہ لوگ مسجد میں داخل ہونے لگے، جب لوگ جمع ہوئے تو آپؒ نے خطبہ کے بعد فرمایا:
’’لوگو! مجھے ایک ذمہ داری سونپی گئی ہے، جس کے متعلق نہ مجھ سے مشورہ لیا گیا ہے اور نہ دیگر مسلمانوں سے اس کے متعلق مشورہ لیا گیا اور نہ ہی میں (خلافت کی) اس اہم ذمہ داری کو اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ میری طرف سے تمہیں کھلی چھٹی ہے، جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کرلو۔‘‘
یہ سن کر مجمع بیک وقت بآواز بلند پکار اٹھا:
’’اے امیر المؤمنین! ہم آپ کو منتخب کرتے ہیں اور ہم اس پر راضی ہیں کہ آپ ہمارے خلیفہ ہوں۔ آپ حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہوگا۔‘‘
جب آپؒ نے یہ صورت حال دیکھی کہ کوئی ایک بھی آواز اس کے خلاف نہیں اٹھی اور سب اس پر مطمئن ہیں کہ میں اس ذمہ داری کو سنبھالوں، تو آپؒ نے دوبارہ حق تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور درود وسلام پڑھا اور لوگوں کو تین نصیحتیں فرمائیں:
(1) تقویٰ اختیار کرو یعنی گناہوں سے بچو (2) دنیا کو زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی فکر نہ کرو (3) آخرت کے لیے اعمال زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی فکر کرو اور آپؒ نے موت کی تیاری کی ترغیب دی (ایک دن سب کچھ چھوڑ کر یہاں سے جانا ہے، اس دن کی تیاری کرلو، جس دن یہاں سے اکیلے جانا ہوگا)
دل سے نکلی ہوئی بات دل پر اثر کرتی ہے۔ یہ باتیں ایسی اثر کرتی گئیں کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور سخت سے سخت دل بھی نرم ہوتے گئے۔ پھر آپؒ نے دل سوز، تھکاوٹ نما، لیکن قدرے بلند آواز میں کہا:
’’اے لوگو! جو حاکم حق تعالیٰ کا فرماں بردار ہو، اس کا کہا مانو اور جو خدا کا نافرمان ہو، اس کی بات ماننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لوگو سنو! جب تک میں خدا تعالیٰ کافرماں بردار ہوں تو میری بات مانتے رہنا اور جب کبھی خدا کی نافرمانی پر اتر آؤں تو تم میرے احکامات کو ٹھکرا دینا۔‘‘
پھر منبر سے اترے اور سیدھے گھر گئے، اپنے کمرے میں جاکر کچھ دیر آرام کرنے کے لیے بستر پر لیٹ گئے، کیوں کہ اپنے سے پہلے خلیفہ کی وفات کے موقع پر شرکت کرنے اور ان کے کفن دفن کی وجہ سے آپؒ بہت تھک چکے تھے۔
جیسا باپ ویسا بیٹا:
حضرت امیرالمؤمنین عمر بن العزیزؒ ابھی اپنے بستر پر پہلو کے بل لیٹے ہی تھے کہ ان کا سترہ سالہ ( صالح بیٹا) عبدالملک کمرے میں داخل ہوا۔
اس نے کہا: امیرالمؤمنین آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟
فرمایا: بیٹا میں تھوڑی دیر سونا چاہتا ہوں، اس لیے کہ اب میرے جسم میں طاقت نہیں ہے، میں بہت تھک چکاہوں۔
بیٹے نے کہا : امیرالمؤمنین! آپ مظلوم لوگوں کی فریاد سنے بغیر ہی سو جانا چاہتے ہیں؟ ان کا وہ مال جو ظلم سے چھینا گیا ہے، انہیں واپس کون دلائے گا؟
فرمایا: بیٹا! چوں کہ میں تمہارے چچا خلیفہ سلیمان کی وفات کی وجہ سے گزشتہ ساری رات جاگتا رہا، تھکاوٹ کی وجہ سے میرے جسم میں طاقت نہیں۔تھوڑا آرام کرنے کے بعد نماز ظہر لوگوں کے ساتھ پڑھوں گا اور پھر یقیناً مظلوموں کی فریادرسی ہوگی اور ہر ایک کو اس کا حق دیا جائے گا، کوئی محروم نہیں رہے گا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment