حضرت معاذؓ کا ایک لڑکا وفات پا گیا تو نبی کریمؐ نے ان کو تعزیتی خط لکھا، حضرت معاذؓ کو آپؓ نے یمن بھیجا تھا۔ خط کا مضمون تھا:یہ خط خدا کے رسول محمدؐ کی طرف سے معاذ بن جبلؓ کے نام ہے، تم پر سلامتی ہو، میں خدا کا شکر اور اس کی حمد و تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تم بھی خدا کا شکر اور اس کی تعریف کرو۔
اما بعد! خدا تعالیٰ تمہیں اجر عظیم دے اور تمہیں صبر دے اور ہمیں اور تمہیں شکر کی توفیق بخشے، ہماری جانیں اور مال اور بال بچے یہ سب خدا کی خوشگوار نعمتیں ہیں اور یہ ہمارے پاس اس کی رکھی ہوئی امانتیں ہیں، جب تک یہ تمہاری رہیں مسرت اور خوشی تمہیں ملے اور ان کے چلے جانے کے بعد خدا اجر عظیم سے نوازے، تمہارے لیے خدا کی رحمت اور انعام اور ہدایت ہو، اگر اجر آخرت کی نیت سے صبر کیا، پس تم صبر کرو اور دیکھو تمہاری بے قراری اور بے صبری تمہیں اجر سے محروم نہ کردے، ورنہ پچھتاؤ گے اور اس بات کا یقین کرو کہ بے صبری سے کوئی مرنے والا لوٹ کر نہیں آسکتا اور نہ غم دور ہو سکتا ہے اور جو حادثہ واقع ہوا ہے اسے تو ہونا ہی تھا۔‘‘
(زاد راہ صفحہ نمبر 284)
مریض کی عیادت!
حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اکرمؐ کے ساتھ بیٹھے تھے، اسی اثنا میں انصار کا ایک آدمی آیا اور اس نے نبی کریمؐ کو سلام کیا، جب وہ واپس جانے لگا تو رسولؐ نے فرمایا: سعد بن عبادہ کا حال بتاؤ؟ ( وہ بیمار تھے)۔
اس انصاری نے جواب دیا کہ وہ ٹھیک ہیں۔ رسول اکرمؐ نے مجلس والوں سے فرمایا کہ تم میں سے کون لوگ سعد کی عیادت کو چلیں گے، پس نبی کریمؐ اٹھے اور ہم بھی آپؐ کے ساتھ جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم دس سے زیادہ آدمی تھے، نہ تو ہمارے پیروں میں جوتے تھے، نہ چمڑے کے موزے تھے، اور نہ جسم پر کرتے تھے ( بلکہ غربت کی وجہ سے معمولی چادریں تھیں) اسی حالت میں ہم چلتے رہے، یہاں تک کہ سعدؓ بن عبادہ کے پاس پہنچ گئے، ان کے گھر کے لوگ ان کے پاس سے ہٹ گئے اور رسول اکرمؐ اور آپؐ کے ساتھ جو لوگ تھے ان کے قریب گئے اور عیادت کی۔
(زاد راہ)
کایا پلٹ جملہ!
سفیان حسین نامی ایک شخص قاضی ایاس بن معاویہؒ کی مجلس میں بیٹھ کر کسی آدمی کی غیبت کرنے لگا، قاضی نے اس سے کہا ’’ آپ نے رومیوں کے ساتھ جہاد کیا؟‘‘ کہنے لگا: پھر پوچھا: سندھ اور ہند کے جہاد میں شریک ہوئے ہو؟ کہا نہیں، فرمانے لگے: روم سندھ اور ہند کے کفار تو آپ سے محفوظ رہے لیکن بے چارہ ایک مسلمان بھائی آپ سے نہیں بچ سکا اور آپ نے اس پر زبان کی تلوار چلا دی، سفیان پر ان کے جملے کا اس قدر اثر ہوا کہ پھر زندگی بھر کسی کی غیبت نہیں کی۔
( البدایہ والنھایہ صفحہ نمبر 336 ج9)
٭٭٭٭٭