حضور اقدسؐ نے صحابہ کرامؓ کی مختلف موقعوں پر خوب حوصلہ افزائی فرمائی۔ جب قائد، رہبر اور رہنما اپنے ماتحت کے بارے میں حوصلہ افزا بات کرتا ہے، اس کی تحسین کرتا ہے تو پھر اس کے عزم و یقین میں مزید پختگی اور استقامت آجاتی ہے۔ رسول اقدسؐ کے ایک پیارے صحابی سیدنا صہیب رومیؓ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے اپنا مال خدا کی خاطر دشمنوں کے حوالے کر دیا۔ مسلمانوں کی اکثریت مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کر چکی تھی۔ خود رسول اقدسؐ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جا چکے تھے اور ابھی قبا میں ہی مقیم تھے۔
حضرت صہیب رومیؓ کا والد سنان النمیری ایرانی بادشاہ کسریٰ کی جانب سے عراق کی ایک بستی کا گورنر تھا اور خالص عربی النسل تھا۔ سیدنا صہیبؓ کی والدہ بھی مشہور قبیلے بنی تمیم سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کو رومی لٹیروں نے شب خون کے دوران گرفتار کیا اور روم پہنچا دیا۔ وہاں ان کو ایک پادری کی زبانی معلوم ہوا کہ جزیرئہ عرب کے شہر مکہ میں ایک نبی کے ظہور کا وقت قریب آچکا ہے، جو عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کریں گے اور لوگوں کو ظلم و ستم سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائیں گے۔ پھر وہ کسی نہ کسی طرح رسول اقدسؐ کی بعثت سے قبل مکہ پہنچ گئے اور ابن جدعان کی کفالت میں سونے کا کاروبار شروع کیا۔
جلد ہی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے خاصے دولت مند بن گئے۔ جب رسول اقدسؐ نے نبوت کا اعلان کیا تو ابتدائی مسلمانوں میں یہ بھی شامل تھے۔ ہجرت کا سفر شروع ہوا تو جن لوگوں پر مشرکین کی گہری نظر تھی، اس میں سر فہرست صہیب رومیؓ بھی تھے۔ یہ مالدار تو تھے، مگر ان کا کوئی قبیلہ نہ تھا، جو ان کی حمایت و حفاظت کرتا۔ مشرکین نے ان پر پہرے دار مقرر کر دیئے کہ ہجرت نہ کرنے پائیں۔ ادھر انہوں نے جو مال کمایا تھا، اس کو سونے چاندی کی صورت میں جمع کرکے گھر کے کونے میں دفن کر دیا۔
یہ ایک سرد رات تھی، جب انہوں تیر کمان سنبھالی، تلوار گلے میں لٹکائی، پہریدار کو چکمہ دیا اور مدینہ کی راہ پر چل دیئے۔ پہرے داروں کو جب احساس ہوا کہ صہیبؓ تو نکل چکے ہیں تو فوراً پیچھا کیا۔ اتنے میں صبح نمودار ہو چکی تھی۔ انہوں نے حضرت صہیب رومیؓ کو گھیرے میں لے لیا۔ وہ کوشش کر کے ایک ٹیلے پر چڑھ گئے۔ کمان میں تیر چڑھا کر قریش کو للکارا۔ خدا کی قسم! تم لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ میں تم سب سے زیادہ ماہر تیر انداز ہوں۔ میرا نشانہ بڑا زبردست ہے۔ خدا کی قسم! تم میری طرف بڑھنے کی غلطی کرو گے تو میں اپنے ایک ایک تیر سے تمہارے ایک ایک آدمی کو موت کے گھاٹ اتار دوں گا۔ پھر جو بچ جائے گا، اس کا تلوار سے مقابلہ کروں گا، حتیٰ کہ میں قتل ہو جاؤں۔
قریش میں سے ایک شخص بولا: صہیب دیکھو! ایسا ممکن نہیں کہ تم اپنا مال اور جان دونوں سلامتی کے ساتھ مدینہ لے جاؤ۔ تم مکہ میں مفلس اور قلاش آئے تھے۔ تم نے یہاں کمایا، کاروبار کیا اور مالدار بن گئے۔
سیدنا صہیبؓ معاملہ سمجھ گئے۔ ایک لمحہ تامل کیا، پھر کہنے لگے: اگر میں تمہیں اپنا سارا مال دے دوں تو کیا میرا راستہ چھوڑ دو گے؟ وہ کہنے لگے کہ ہمیں تمہارا مال ہی چاہیے۔ ادھر یہ ایمان بچانا اور اپنے آقاؐ کی صحبت حاصل کرنا اور ان کے پاس رہنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے معاہدہ کیا اور دفینے کی جگہ بتا دی۔ کچھ لوگ ان کے گھر گئے، وہاں سے سونا چاندی نکالا اور واپس آکر اپنے ساتھیوں سے کہا: ان کا راستہ چھوڑ دو۔
اس طرح انہوں نے ساری زندگی کی کمائی رسول اقدسؐ کی محبت کی خاطر لٹا دی۔ وہ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے قبا پہنچے۔ آپؐ ابھی وہیں قیام پذیر تھے۔ اب ذرا دیکھیے، رسول اقدسؐ کی عظمت اور شان کہ اپنے لٹے پٹے ساتھی کا استقبال کس انداز میں فرمایا۔ کائنات کی اشرف المخلوقات شخصیت اپنے ساتھی کو دیکھتے ہیں تو کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کا والہانہ استقبال کرتے ہیں۔ محبت سے گلے لگاتے ہیں اور تین بار فرماتے ہیں: ’’ابو یحییٰ! تمہاری تجارت نہایت کامیاب رہی‘‘۔ (ابویحییٰ سیدنا صہیبؓ کی کنیت تھی)
ذرا اس منظر کا تصور سامنے لائیں، جب رسول اقدسؐ نے پیارے صہیبؓ کو گلے لگا کر مبارک باد دی ہوگی۔ صہیبؓ کا مورال کتنا بلند ہوا ہوگا۔ ان کے سفر کی ساری صعوبتیں دور ہو چکی ہوںگی۔ ان کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا ہو گا!
ان کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور عرض کی: حضور! اس واقعے کا میرے علاوہ کسی کو علم نہ تھا۔ یقینا یہ ساری باتیں آپ کو جبریل امینؑ بتا کر گئے ہیں۔ پھر حق تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو ایک اعزاز بخشا۔
اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، ذرا رک جائیں اور غور کریں۔ یہ بات کہہ دینا، سن لینا، تقریر میں بیان کردینا یا کتاب میں لکھ دینا کہ فلاں شخص نے اپنا سارا مال اور زندگی بھر کی کمائی دے کر دین بچالیا، بڑا آسان ہے۔ مگر واقعتاً یہ قربانی کوئی چھوٹی تو نہ تھی۔ بہت بڑی قربانی تھی۔ اسی لیے تو حق تعالیٰ نے بھی اپنے بندے کی اس ادا اور قربانی کا ذکر قرآن کریم میں فرما دیا کہ قیامت تک مسلمان سورۃ البقرۃ میں آیت نمبر 207 کی تلاوت کرتے رہیں گے اور سیدنا صہیب رومیؓ کی اس قربانی کو یاد کر کے انہیں خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔ ارشاد ہوا :
ترجمہ: ’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور خوشنودی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑی شفقت کرنے والا ہے‘‘۔
٭٭٭٭٭