سادہ شادی بابرکت زندگی

حضرت مبارکؒ کی مبارک شادی کا واقعہ:
حضرت ابن مبارکؒ کے نام سے کون نا واقف ہے۔ جلیل القدر محدث، امام بخاریؒ کے استاذ اور امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد۔ ان کے والد حضرت مبارکؒ ایک ترک تاجر کے ملازم تھے اور اس کے باغ کی نگرانی ان کے فرائض میں شامل تھی۔ ایک دن مالک باغ میں آیا اور انہیں انار لانے کو کہا اور تاکید کی کہ انار کھٹا نہ ہو۔
مبارک انار لائے تو کھٹے نکلے۔ مالک باغ نے ناراضگی کا اظہار کیا تو آپؒ نے اس کے غصے کے جواب میں فرمایا کہ وہی خدمت بجالاتا ہوں، جس کیلئے رکھا گیا ہوں، باغ کے پھل چکھنے کی اجازت مجھے نہیں دی گئی، اس لئے مجھے ان کے کھٹے اور میٹھے کی پہچان نہیں۔
مالک نے جب یہ بات سنی تو بہت خوش ہوا کہ ایک دیانتدار اور امین ملا ہے اور کہا کہ آج سے تم میرے دوست ہو۔ اب باغ کے بجائے میرے گھر رہو گے۔ اب دن رات کے ساتھ نے اور بھی دونوں کو قریب کردیا۔ مالک ان کی ایک ایک بات کی نگرانی کرتا۔ ان پر نظر رکھتا اور پرکھتا۔
ایک دن انہیں بلا کر مشورہ لیا کہ مجھے اپنی بیٹی کیلئے لڑکے کا انتخاب کرنا ہے، مجھے بتائو لڑکا کیسا ہونا چاہئے؟
مبارک نے جواب دیا کہ عرب دور جاہلیت میں حسب و نسب کو دیکھتے تھے۔ یہودی، لڑکے کی دولت کو دیکھ کر رشتہ دیتے ہیں۔ عیسائی، لڑکی کی خوبصورتی دیکھتے ہیں، مگر اسلام ان باتوں سے ہٹ کر لڑکے کی دینداری، اخلاق و کردار اور دیانت و امانت کو ترجیح دیتا ہے۔ آپ اپنی لڑکی کے لئے جو معیار چاہیں، چن سکتے ہیں۔
ترک تاجر نے اپنی بیوی سے کہا: مبارک نے کیسی اچھی بات کہی۔ بیوی کو بھی یہی مشورہ پسند آیا۔ شوہر نے بیوی سے کہا کہ جب اسلام کے نزدیک اخلاق و کردار، دیانت و تقویٰ کا معیار یہی ہے تو اسلام کے معیار پر مبارک پورا اترتا ہے۔ ہماری لڑکی کے لئے ان سے بہتر کون ہوسکتا ہے۔
بیوی نے تائید کی، رشتہ اس معیار پر طے ہو گیا۔ اس کے نتیجے میں حضرت ابن مبارکؒ جیسی صاحب کردار، پرہیزگار اور علمی دنیا کی یگانہ روزگار شخصیت پیدا ہوئی۔
ایک نکاح میں حضرت تھانویؒ کی سرپرستی کا قصہ:
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:
ہم ایک شادی میں دولہا کے سرپرست بن کر گئے تھے اور یہ پہلے سے طے ہوگیا کہ کوئی رسم نہ ہوگی، خیر عصر کے بعد نکاح تو ہوگیا اور مغرب کے بعد کھانا… اب رخصتی کا وقت آیا لڑکی والوں نے تقاضا کیا کہ پالکی یا میانہ لائو، ہم بغیر پالکی یا ڈولہ کے رخصتی نہ کریں گے۔
میں نے کہا کہ ہم (اس طرح) رخصتی ہی نہیں چاہتے۔ ساتھیوں نے کہا کہ کیا رائے ہے؟ میں نے کہا رائے یہی ہے، کیونکہ نکاح تو ہو ہی چکا ہے، ہم اپنے گھر جاتے ہیں، تم خود دلہن کو ہمارے پیچھے پیچھے لائو گے۔ یہ سن کر سیدھے ہوگئے۔
پھر کہنے لگے کہ جہیز کیلئے چھکڑا لائو۔ میں نے کہا کہ ہم جہیز نہیں لے جاتے، آخر چھکڑا بھی خود لائے۔ عورتیں کوستی رہیں، مگر ہم مظلوم تھے، ظالم کے کوسنے سے مظلوم کا نقصان نہیں ہوتا۔ غرض ایسی برکت کا نکاح ہوا کہ دونوں طرف کا نکاح ہوا، ایک پیسہ خرچ نہ ہوا (کیونکہ برکت والا نکاح وہی ہوتا ہے کہ جس میں کم سے کم خرچ ہو، جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہے۔)
اسی دولہا کے ایک دوسرے بھائی کا نکاح رسم کے ساتھ ہوا تو وہ قرضدار ہو گیا، میں نے کہا کہ ایک نکاح ہوا تو اس میں قرض ہوا، اگر دوسرا ہوا تو ختم ہی ہو جائے گا، اس قرضدار کی دلہن کوستی تھی، ماں باپ کو بھی، ساس سسر کو بھی کہ ان کا کیا نقصان ہوا، روٹی کی کمی تو ہم پر ہوگئی۔ (یعنی تنگی ہوگئی)۔ (الاتمام لنعمۃ الاسلام ملحقہ محاسن اسلام، ص 228)
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment